سوات کا تاریخی ورثہ : انتہاپسندی کا شکار
27 جولائی 2009مقامی طالبان باغیوں کے خلاف جاری عسکری کارروائی کے نتیجے میں شدت پسندوں نے سوات اور بونیر کے طول وعرض میں ہندو اور بدھ مت کے ہزاروں سالوں پرانے ورثے کو بھی بے دردی سے تباہ کیا۔ یہ علاقے قدیم تہذیبوں کے مرکز رہے ہیںاوریہاں بدھ مت مذہب کے ماننے والے آتے رہے۔ سوات کے متعدد علاقوں میں بدھ مت کے ہزاروں سال پرانے بدھا اورسٹوپازموجود ہیں ایک طرف محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے اس کی حفاظت نہ ہوسکی تو دوسری جانب شدت پسندوں کی نظروں میں آنے کے بعد اسے تباہ کیاگیا۔ سوات کے سیاحتی مرکز مالم جبہ میں تقریبا ً دوہزار سال پرانے بدھا کے دو مجسموں کونقصان پہنچایاگیا۔ جان آباد کے علاقے میں واقع یہ مجسمہ افغانستان کے شہر بامیان میں طالبان کے ہاتھوں تباہ ہونے والے مجسمے کے بعد دوسرا بڑا مجسمہ تھا جس کا چہرہ شرپسندوں نے مسخ کردیاہے۔ مینگورہ سے تعلق رکھنے والے صحافی فیاض ظفر کہتے ہیں کہ ”سوات قدیم تہذیبوں کا عظیم مرکز رہا باالخصوص بدھا کے پیروکار یہاں آتے تھے مالم جبہ میں ہزاروں سال پرانے دومجسمے تھے ان کو شدید نقصان پہنچایاگیا اسی طرح عالیگئے میں بھی ہزاروں سال پرانے مجسموں کو نقصان پہنچایاگیا۔ سوات کے تقریبا ہر علاقے میں بدھ مت کے آثار موجود ہیں تاہم یہاں سے جمع کیے گئے مجسمے اور نوادرات کو سوات میوزیم میں جمع کیا گیا تھا اورفی الحال وہ محفوظ ہیں“۔
ضلع سوات کے طول وعرض میں ہزاروں سال پرانی گندھار ا تہذیب کی نشانیاں پائی جاتی ہیں مالم جبہ میں موجود بدھا کے مجسمے اور تحصیل شموزی کے علاقے نیو گرام میں دوسرے اورتیسرے صدی کے تین بڑے سٹوپاز ہیں جبکہ شاہ کوٹ اور بت کڈہ کے علاقے میں متعدد سٹوپاز ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ دوسری صدی سے لے کر آٹھویں صدی تک مالاکنڈ ڈویژن کا ضلع سوات بدھ مت کے پیروکاروں کابڑا مرکز رہا جس کی وجہ سے یہاں ہزاروں سال پرانے نواردات اور بدھ مت کے آثار آج بھی موجود ہیں تاہم مقامی لوگوں کاکہناہے کہ اس قیمتی ورثے اور نوادرات کی تباہی میں عسکریت پسندوں سے زیادہ محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کی غفلت شامل ہے کیونکہ طالبان کی آمد سے قبل حکومت نے اس قیمتی ورثے کو محفوظ کرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بند ہونے والے سوات عجائب گھر کے ایک اہلکار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’’ عسکریت پسندوں کی خوف کی وجہ سے سوات کے عجائب گھر میں موجود انتہائی قیمتی ورثہ اور نواردات ٹیکسلا کے عجائب گھر منتقل کردیاگیا ہے تاہم اب جبکہ سوات میں حالات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں مقامی لوگ یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ سیاحت کی فروغ کیلئے سوات میوزیم کے نوادرات اور تاریخی ورثے کو بھی واپس لانا چاہیے۔ آثار قدیمہ کی تباہی کی ذمہ داری میں محکمہ کے اہلکاروں کابھی بڑا ہاتھ ہے کیونکہ طالبانائزیشن سے قبل بھی اس کی حفاظت کیلئے کو ئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
طالبانائزیشن سے زیادہ محکمانہ غفلت کی وجہ سے زیادہ نقصان جان آباد کے بدھا کو پہنچایا گیا،جو بامیان کے بعد سب سے بڑا بت تھا۔ یہ اس خطے میں شاید افغانستان کے بامیان کے بعد بڑا بدھاتھا اسی طرح بت کڑہ نمبرایک میں بھی بہت سارے سٹوپاز اچھی حالت میں تھے اورکچھ مجسمے ایسے تھے جو انتہائی پرانے تھے اسے بھی توڑا گیا “۔
شدت پسندوں کی خوف کی وجہ سے سوات میوزیم میں موجود تمام نوادرات اورقیمتی ورثہ ٹیکسلا عجائب گھر منتقل کردیا گیا ہے لیکن حالات میں بہتری آنے اور متاثرین کی واپسی کے بعد اب مقامی لوگ یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ سوات کی سیاحت میں فروغ کیلئے اس تاریخی ورثے کی واپسی بھی ناگزیر ہے۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: عاطف بلوچ