1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سولر آربٹر، سورج کے راز چرانے نکل پڑا

10 فروری 2020

یورپی اور امریکی ماہرین کی ٹیم نے کامیابی کے ساتھ کینیڈی اسپیس سینٹر سے سولر آربٹر نامی ایک خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ اس کا سفر نو برس تک طویل ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3XYEz
Solar Orbiter - NASA
تصویر: picture-alliance/AP/NASA/SDO/P. Testa

یورپی اور امریکی ماہرین کی ٹیم نے کامیابی کے ساتھ کینیڈی اسپیس سینٹر سے سولر آربٹر نامی ایک خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ اس کا سفر نو برس تک طویل ہو سکتا ہے، مگر ماہرین کو امید ہے کہ اس کے ذریعے وہ سورج کے ایسے راز جان سکیں گے جن سے ہم اب تک لاعلم ہیں۔

یورپی خلائی تحقیقی ادارے ای ایس اے (یورپیئن اسپیس ایجنسی) اور امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے ماہرین نے مشترکہ طور پر کیپ کنیورل میں واقع مرکز سے سولر آربٹر نامی یہ خلائی مشن روانہ کیا ہے۔ اس مشن کا مقصد نظام شمسی کے بارے میں 'بڑے سوالات‘ کا جواب تلاش کرنا ہے جس میں سورج کے قطبین کی اولین تصاویر اتارنا بھی شامل ہے۔

سولر آربٹر اتوار کی شب کیپ کنیورل میں واقع کینیڈی اسپیس سنٹر سے مقامی وقت کے مطابق 11:03 بجے روانہ ہوا۔ عالمی وقت کے مطابق یہ پیر کی صبح کے 04:03 تھے۔اس خلائی مشن کو اٹلس وی 411 راکٹ کے ذریعے روانہ کیا گیا۔

Max-Planck-Institut für Sonnensystemforschung
سولر آربٹر میں 10 مختلف سائنسی آلات نصب ہیں اور ان کا مجموعی طور پر وزن 1800 کلوگرام ہے۔تصویر: DW/C. Borrmann

ای ایس اے اور ناسا کے اس مشترکہ خلائی مشن کو جرمن شہر دارم اشٹٹ میں واقع یورپییئن آپریشنز سنٹر سے کنٹرول کیا جائے گا۔

ناسا کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق سولر آربٹر کی روانگی کے بعد ڈارم اشٹٹ کے کنٹرول سینٹر میں سگنل موصول ہوا کہ اس خلائی جہاز  کے سولر پینل کامیابی کے ساتھ کھُل گئے ہیں اور انہوں نے کام شروع کر دیا ہے۔

سولر آربٹر میں 10 مختلف سائنسی آلات نصب ہیں اور ان کا مجموعی طور پر وزن 1800 کلوگرام ہے۔ اس مشترکہ مشن پر 1.5 بلین یورو کی لاگت آئی ہے جو 1.66 ارب ڈالرز کے برابر بنتی ہے۔ اس خلائی جہاز کا سفر نو برس تک جاری رہے گا جبکہ یہ دو برس میں سورج کے ابتدائی مدار میں پہنچ جائے گا جسے پرائمری سائنٹیفیک آربٹ کہا جاتا ہے۔

سولر آربٹر سے کیا معلومات حاصل ہوں گی؟

محققین کو امید ہے کہ سولر آربٹر سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی سے سورج کے فضائی کُرے، اس پر چلنے والی تیز ہواؤں، اس کے مقناطیسی میدان کے بارے میں تفصیلات حاصل ہوں گی اور ساتھ ہی سورج کی سطح سے اٹھنے والے شمسی طوفانوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوں گی جو ہماری زمین اور اس پر موجود نظاموں کو متاثر کرتے ہیں۔

BdT: Solar Orbiter
سولر آربٹر اتوار کی شب کیپ کنیورل میں واقع کینیڈی اسپیس سنٹر سے مقامی وقت کے مطابق 11:03 بجے روانہ ہوا۔ تصویر: Reuters/S. Nesius

یورپی اسپیس ایجنسی کے ڈائریکٹر آف سائنس گوئنتھر ہاسنگر کے بقول، ''سولر آربٹر مشن کے اختتام تک ہم سورج کے تبدیل ہوتے ہوئے رویے کے پیچھے کارفرما خفیہ طاقت اور اس کے ہمارے سیارہ زمین پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بہت زیادہ آگاہ ہوں گے۔‘‘

ہاسنگر کے بقول اس کے ذریعے سولر آربٹر سے حاصل ہونے والی معلومات کے ذریعے ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ طاقتور شمسی طوفان کس طرح ہماری روز مرہ زندگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ع ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)