سولہ برس بعد کوہ پیماؤں کی لاشیں برآمد
2 مئی 2016ایلیکس لووے کی یاد میں قائم ایک تنظیم کے مطابق ان افراد کی باقیات دو کوہ پیماؤں ڈیوڈ گوئٹلر اور اولی سٹیک کو گزشتہ ہفتے دکھائی دیں۔ اکتوبر انیس سو ننانوے میں چالیس سالہ لووے اور ان کے ساتھی کیمرہ مین انتیس سالہ ڈیوڈ برجز چین کی آٹھ ہزار ستائیس میٹر بلند شیشہ پنگمہ چوٹی پر ایک برفانی تودے کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے تھے۔ ان دونوں کا تعلق امریکا سے تھا اور یہ حادثہ نشیبی برف پر اسکیئنک کے دوران پیش آیا تھا۔
ایک اور کوہ پیما کونراڈ اینکر اس حادثے میں بچ گئے تھے۔ انہوں نے بعد میں لووے کی بیوہ سے شادی کی تھی اور ان کے تین بیٹوں کو بھی گود لیتے ہوئے پرورش کی تھی۔ انہوں نے لووے کی لاش ملنے پر کہا،’’ ان لاشوں کا ملنا اس خاندان کے لیے سکون کا باعث ہے۔‘‘ کونراڈ لاشوں کو واپس امریکا لانے کے لیے تبتی چوٹی کا سفر کریں گے، جو دنیا کے ان چودہ پہاڑیوں میں شامل ہے، جن کی بلندی آ ٹھ ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔
لووے کی بیوہ جینیفر لووے اینکر نے جمعے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایلکس کے والدین لاش کے ملنے پر شکر گزار ہیں۔ جینیفر بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ شیشہ پنگمہ جائیں گی۔ یہ جوڑا کوہ پیمائی کے ایک مرکز کی نئی عمارت کی تعمیر کا جائزہ لینے کے لیے نیپال میں تھا جب انہیں یہ خبر موصول ہوئی۔ کھمبو کوہ پیمائی مرکز مقامی کوہ پیماؤں کو تربیت فراہم کرے گا۔ یہ مرکز دو ہزار تین میں لووے کی یاد میں قائم کیا گیا تھا۔ لووے نے دو بار ایورسٹ کو سر کیا تھا اور ان کے نیپال کی حکومت سے گہرے روابط تھے۔
موت سے قبل لو وے کو دنیا کے بہترین کوہ پیماؤں میں شامل کیا گیا تھا اور ارجنٹائن میں موجود براعظم امریکا کی سب سے اونچی چوٹی آکونکاگوا کو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سر کرنے کے بعد انہیں ایک ایسا کوہ پیما قرار دیا گیا، جس کے ’’پھیپھڑوں میں پیر‘‘ لگے ہوئے ہوں۔
کوہ پیما ڈیوڈ گوئٹلر اور اولی سٹیک نے یہ لاشیں اس وقت دریافت کیں جب وہ شمال کی جانب سے شیشہ پنگمہ پر چڑھ رہے تھے۔ یہ پہاڑانیس سو اٹہتر تک مغربی کوہ پیماؤں کے لیے بند تھا۔ اسے سر کرنا آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند دیگر چوٹیوں کے مقابلے میں قدرے آسان سمجھا جاتا ہے۔ کوہ پیمائی کی مہم کے اکثر منتظمین کوہ پیماؤں کو صلاح دیتے ہیں کہ اونچے پہاڑوں کو سر کرنے سے پہلے اپنی تربیت کے ایک حصے کے طور پرشیشہ پنگمہ کو سر کریں۔