سونامی کے پانچ سال ، زندگی معمول پر
23 دسمبر 2009بحر ہند میں پانچ سال قبل 26 دسمبر سن 2004 کو سونامی کے نتیجےمیں کم ازکم تین لاکھ افراد ہلاک ہو گئےتھے۔ اس سونامی نے جنوب اورجنوب مشرقی ایشیا میں تباہی مچا دی تھی۔ اُس وقت کے جرمن چانسلر Gerhard Schröder نے نئےسال کی اپنی تقریرمیں سونامی سےمتاثرہ افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ جرمن شہر بون کی ایک تنظیم جرمن ایگرو ایکشن نے پانچ لاکھ یوروز کی خطیر رقم اکٹھی کی اور جنوبی بھارتی ضلع Cuddalore کے متاثرین کو دی۔ پانچ سال گزرنے کے باوجود اس علاقے کے لوگ سونامی کے بعد جرمن ادارے کی امدادی کارروئیوں کو ابھی تک نہیں بھولے ہیں۔
بارہ سالہ سابی ناتھ کو اُس قیامت خیز سونامی کے بارے میں سب کچھ ٹھیک سے یاد نہیں، جس نے ضلع Cuddalore کے اُس کے گاؤں کو تباہ کردیا۔ سابی ناتھ کو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ اس تباہی سے کون کون ہلاک ہوا اور کتنے گھر تباہ ہو ئے تھے۔ سونامی کے بعد گزشتہ پانچ سال کے دوران سابی ناتھ اتنے انٹرویوز دے چکا ہے کہ وہ اب روانی سے جواب دینے لگتا ہے، جیسے سب کچھ آٹومیٹک ہو رہا ہو۔ سابی ناتھ کو اگر کوئی چیز ٹھیک سے یاد ہے تو وہ ہے ایک جرمن امدادی ادارے کا نام، جس نے متاثرہ گاوٴں میں امدادی کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔
سابی ناتھ Mettupalayam میں جس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، وہ جرمن ایگرو ایکشن نے مقامی تنظیم لائف ہیلپ سینٹر برائے معذوران کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اس اسکول میں انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے اور گرد ونواح کے پندرہ دیہاتوں سے تقریباً 280 طالب علم وہاں رجسٹرڈ ہیں۔
پانچ سال پہلےجب طوفان آیا تھا تو اس علاقےکےتقریباً آٹھ سو بچے بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تباہی کے بعد جرمن شہر بون میں قائم امدادی ادارے نے Cuddalore کی تعمیر نو کا کام شروع کیا تھا۔
Cuddalore کےسابق مئیر گنگا دیپ سنگھ بیدی کہتے ہیں کہ مشکل کے وقت میں جرمن ادارے کا تعاون بہت اہم تھا: ’’ہمارے لئے یہ احسا س بہت اچھا تھا کہ ہزاروں کلو میٹر دور بون شہر میں لوگ ہمارے بارے میں سوچ رہے تھے۔ انہوں نے دل کی عمیق گہرائیوں سے ہماری مدد کی۔ بھارت ۔ جرمن دوستی کی یہ ایک اعلیٰ مثال تھی۔
جنوبی بھارتی شہر چنئی میں جرمن ایگرو ایکشن کے کے سربراہ ڈاکٹر Arumugam Gurusamy نے بتایا کہ ریاست تامل ناڈو کے اس پسماندہ علاقے میں سونامی کی تباہی کے بعد تقریباً 700 منصوبے شروع کئے گئے۔ انہوں نے بتایا: ’’سونامی آنے کے بعد ایک مقامی اخبار میں آرٹیکل چھپا، جس میں لکھا گیا کہ ’’سونامی ایک سنہری موقع ہے‘‘۔ جہاں سونامی نے اس علاقے میں تباہی مچائی، وہیں اس علاقے میں ترقی کے لئے نئے راستے بھی کھلے۔ یقیناً سونامی کے بغیر بھی یہاں ترقیاتی منصوبے عمل میں لائے جاتے لیکن شاید اتنے بڑے پیمانے پر نہیں!
سونامی کے بغیر شاید بارہ سالہ سابی ناتھ اسکول بھی نہ جا سکتا۔اس کی فیس،کھانا پینا اوردیگر اخراجات غیر سرکاری ادارے اٹھا رہے ہیں۔ تاہم سونامی کے پانچ سال بعد اب اس علاقے میں غیر سرکاری اداروں کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
رپورٹ: پریا ایسلبورن/ عاطف بلوچ
ادارت: گوہر نذیر گیلانی