Zerfall der UdSSR
16 اگست 201120 سال قبل سوويت يونين کا ٹوٹنا ايک ايسا بڑا واقعہ تھا، جس نے تاريخ کے دھارے پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ ليکن اس کے ساتھ ہی يہ ايک بہت پيچيدہ عمل تھا جو بہت سے ريکارڈ کے ناقابل رسائی ہونے کی وجہ سے ماضی کی طرح آج بھی انتہائی مشکل سے سمجھ ميں آنے والا ہے۔
اس ليے يہ تقريباً ناممکن ہے کہ اس واقعے کا ايک ايسا تجزيہ کيا جائے جو معروضی، متوازن اور ہر شخص کے ليے قابل قبول ہو۔ اکثر سوويت يونين کے ٹوٹنے کی وجہ ’’گورباچوف کی غلطی‘‘ يا ’’امريکيوں کی سياست‘‘ قرار ديا جاتا ہے۔ اس سلسلے ميں يہ دعوٰی کيا جاتا ہے کہ ’’سوويت يونين کو ايک نئی شکل‘‘ ميں برقرار رکھنے کا موقع مو جود تھا۔ ليکن يہ لغو اور غير منطقی بات ہے کيونکہ سوويت يونين خاص طور پر اس ليے ٹوٹا کيونکہ وہ اپنے مرکز ميں اصلاح اور جمہوريت کے ليے نا اہل ثابت ہوا تھا۔
سوويت يونين کے قائم رہ سکنے کے بارے ميں خيالی پلاؤ
سوويت يونين کی تعمير ميں شروع دن ہی سے اُس کی تخريب کا بيج بھی موجود تھا کيونکہ سن 1922 ميں اس کا قيام ايک غير جمہوری طريقے پر اور جبر و طاقت کے ذريعے ہوا تھا۔ اسے تاريخ کی ستم ظريفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد کی خانہ جنگی ميں زار کی مخالف کميونسٹ تحريک نے روسی شہنشاہيت کی حدود ميں آباد آزادی کی متلاشی اقوام کو ايک بار پھر بزور طاقت ماسکو کے چنگل ميں پھنسی رياست ہی کے قدموں ميں ڈال ديا۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد جہاں کثير القومی ہنگرين آسٹروی بادشاہت اور سلطنت عثمانيہ کا زوال ہوا، وہاں بولشويک سابق روسی شہنشاہيت کی سرزمين کو ٹوٹ پھوٹ سے بچا سکے تھے۔ ليکن کيونکہ سوويت يونين کا يہ اتحاد اس ميں شامل اقوام کی مرضی اور جمہوريت کے بغير ہوا تھا، اس ليے جمہوريت کے مطالبے کے بعد خود سوويت يونين کے وجود پر ايک سواليہ نشان لگنا لازمی بات تھی جيسا کہ واقعی ہوا بھی۔ يہ خاص طور پر اُن بالٹک رياستوں ميں واضح تھا، جن پر سوويت يونين نے سن 1941/ 45 ميں دوبارہ قبضہ کر ليا تھا۔
سوويت يونين کی شکست و ريخت کے اسباب مبينہ طور پرسن 1985 کے بعد ’گورباچوف کی سياسی غلطی‘ سے کہيں زيادہ گہرے ہيں۔ سوويت يونين کے خاتمے کو نوآبادياتی دور کے خاتمے اور ايک مطلق العنان کميونسٹ نظريے سے آزادی کے پس منظر ميں ديکھنے سے معاملات کہيں بہتر طور پر سمجھ ميں آ سکتے ہيں۔
اس، يقيناً بہت مغربی نقطہء نظر سے، روسيوں کو بھی سوويت کميونزم سے نجات حاصل کر کے بہت کچھ ملا ہے،يعنی ايک غلط اور تنگ نظريے سے آزادی۔ يہ افسوس کی بات ہے کہ روسيوں کی اکثريت اس آزادی کی زيادہ قدر نہيں کرتی بلکہ وہ موجودہ سماجی معاشرتی مسائل کی وجہ سے پلٹ کر پرانے سوويت دورکو ياد کرتی ہے۔ شايد مزيد 20 سال گذرنے يا ايک نسل بعد ہی روسيوں کو اس کی قدرہوگی۔ يہاں جرمنوں کو يہ بھی فراموش نہيں کرنا چاہيے کہ سن 1985 کے بعد ہی بہت سے جرمنوں کی سمجھ ميں بھی يہ آيا تھا کہ دوسری عالمی جنگ ميں جرمنی کی شکست جرمنی کی آزادی تھی۔
رپورٹ: انگو من ٹوئفل / شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی