سوڈان: مظاہروں کے بعد وزیر اعظم عبداللہ حمدوک مستعفی
3 جنوری 2022سوڈان کے سویلین وزیر اعظم عبداللہ حمدوک نے دو دسمبر اتوار کے روز اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ فوج کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ان کی بحالی کے چھ ہفتوں بعد انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ گزشتہ اکتوبر میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں ان کی حکومت کا تختہ پلٹ گیا تھا۔
عبداللہ حمدوک نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا، ''میں نے یہ ذمہ داری واپس کرنے اور وزیر اعظم کے طور پر اپنا استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس عظیم ملک کو کسی دوسرے مرد یا خاتون کے ہاتھ میں دینے کا موقع فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ ایک سویلین جمہوری ملک کی طرف لانے میں عبوری دور کا جو حصہ بچ گیا ہے اس میں معاون ہو سکے۔''
ان کے اس اعلان سے چند گھنٹے قبل ہی ہزاروں احتجاجی مظاہرین دارالحکومت خرطوم میں سڑکوں پر نکلے اور فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ عبوری حکومت کی منتقلی میں مداخلت بند کرے۔
عبداللہ حمدوک مستعفی کیوں ہوئے؟
وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کا یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب ملک میں جمہوریت کی منتقلی کے عمل کو روکنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں گول میز مباحثے پر زور دیا، تاکہ ایک ایسے نئے معاہدے پر پہنچا جا سکے جو جمہوری طرز حکومت کی بحالی میں مدد گار ثابت ہو۔
انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''میں نے ملک کو تباہی کی طرف بڑھنے سے روکنے کی پوری کوشش کی۔ سیاسی قوتوں کے درمیان اختلاف اور منتقلی پر (فوجی اور سویلین) اجزاء کے درمیان تنازعات کے پیش نظر... اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ کیا گیا ہے، تاہم اس کے باوجود ایسا ہو نہیں پا یا۔''
انہوں نے مزید کہا کہ سوڈان، ''ایک ایسے خطرناک موڑ سے گزر کر رہا ہے جو اس کی پوری بقا کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔'' عبداللہ حمدوک نے فوج کو 2023 میں ہونے والے انتخابات کے لیے راضی کر لیا تھا تاہم ان کے ممکنہ استعفے کی افواہیں اس وقت گردش کرنے لگیں جب مقامی میڈیا نے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے اپنے دفتر ہی نہیں گئے۔
سوڈان میں حالات کیسے ہیں؟
عبداللہ حمدوک کا اچانک استعفی اور اقتدار سے علیحدگی اس بات کا مظہر ہے کہ ملک اس وقت کس سیاسی بحران اور غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔ تین برس قبل زبردست احتجاجی مظاہروں کے بعد اس وقت کی عمر البشیر کی حکومت کو معزول کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد حمدوک فوج کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ملک کے سب سے پہلے وزیر اعظم بنے۔ اس سے قبل وہ اقوام متحدہ کے عہدیدار کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور ایک ماہر معاشیات کے طور پر تربیت یافتہ ہیں۔
جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں فوج نے 25 اکتوبر کو ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی، جس سے جمہوریت کی جانب ملک کے بڑھنے پر تشویش پیدا ہوئی، تاہم پھر نومبر میں انہیں دوبارہ بحال کیا گیا تھا۔
لیکن فوج کی جانب سے اس رعایت کے باوجود احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ مظاہروں کے منتظمین کا دعویٰ تھا کہ حمدوک کی بحالی فوج کی جانب سے بغاوت کو قانونی حیثیت دینے کا اقدام تھا۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف سخت جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)