1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سویا ہوا جِن‘ سمندروں کی سطح دو میٹر تک بلند کر سکتا ہے

افسر اعوان19 مئی 2016

انٹارکٹیکا یا قطب جنوبی کے مشرقی حصے میں موجود ایک بہت بڑا گلیشیئر تیزی سے پگھل رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ گلیشیئر مکمل طور پر پگھل گیا تو اس سے سمندروں کی سطح دو میٹر تک بلند ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1IqZz
تصویر: ESA/dpa

بدھ 18 مئی کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے پگھلنے کا عمل جلد اُس حد تک پہنچ سکتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ابھی تک سائنس دان گرین لینڈ اور قطب جنوبی کے مغربی حصے میں موجود برف کی بڑی تہوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے تھے جو ان کے خیال میں اگر پگھلے تو سمندروں کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اب ایک نئی اسٹڈی میں، جو دراصل اس بارے میں تحقیق کرنے والی ٹیم کے گزشتہ کام کا ہی تسلسل ہے، ایک تیسرے بڑے خطرے کی نشاندہی کی گئی جو ایسے اربوں لوگوں کے لیے بڑے خطرات کا باعث بن سکتا ہے جو دنیا بھر کے ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں۔

اس اسٹڈی کے سینیئر مصنف اور لندن کے امپیریل کالج کے شعبہ ’ارتھ سائنس اینڈ انجینیئرنگ‘ کے شریک ڈائریکٹر مارٹِن زیگرٹ Martin Siegert کے مطابق، ’’میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اس صدی کے اختتام تک ہمارے سیارے کے ایسے تمام بڑے شہر جو ساحلوں پر آباد ہیں وہ سمندر سے بچنے کے لیے اپنے ارد گرد دو سے تین میٹر بلند دفاعی انتظامات رکھتے ہوں گے۔‘‘

اگر فضا سے دیکھا جائے تو ٹوٹن Totten گلیشیئر الگ سے نظر نہیں آتا جس کی وجہ یہ ہے کہ قطب جنوبی ایک غیر محسوس مگر کئی کلومیٹر دبیز برف کی چادر تلے چھپا ہوا ہے۔ ٹوٹن گلیشیئر کا سائز قریباﹰ فرانس کے رقبے کے برابر ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق ارضیاتی طور پر یہ انفرادی حیثیت رکھنے والا یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل بھی رہا ہے۔

قطب جنوبی ایک غیر محسوس مگر کئی کلومیٹر دبیز برف کی چادر تلے چھپا ہوا ہے
قطب جنوبی ایک غیر محسوس مگر کئی کلومیٹر دبیز برف کی چادر تلے چھپا ہوا ہےتصویر: NASA's Goddard Space Flight Center

گزشتہ برس زیگرٹ اور ان کے ساتھیوں نے بتایا تھا کہ یہ گلیشیئر، جس کا زیادہ تر حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے، حدت کی وجہ سے پگھل رہا ہے۔ چونکہ اس گلیشیئر کا زیادہ تر حصہ چٹانوں کی بجائے پانی پر ہی موجود ہے اس وجہ سے اس کے پگھلنے کا عمل مزید تیز ہے۔

اس نئی اسٹڈی کی رپورٹ تحقیقی جریدے ’نیچر‘ میں بدھ 18 مئی کو شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقی جائزے میں اس علاقے کے حدود کا نقشہ تیار کرنے کے لیے سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار کو استعمال کیا گیا ہے۔ محققین کو اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ ٹوٹن نامی یہ گلیشیئر کئی ملین سال قبل پیدا ہونے والی قدرتی عالمی حدت کے سبب بھی اسی طرح کے پگھلنے کے عمل سے گزر چکا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ایسے سائنسدانوں، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ مستقبل کے حوالے سے خطرات کے بارے میں آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔