صحافی ساجد بلوچ کو قتل نہیں کیا گیا، سویڈش تفیش کار
30 جولائی 2020ساجد بلوچ کے اہلخانہ نے تحقیقات کو روک دیے جانے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر ساجد کے بھائی واجد بلوچ نے بتایا کہ ابھی تک ان کی فیملی کو ساجد کی لاش نہیں ملی ہے اور فی الحال وہ اس کیس کے بارے میں مزید بات نہیں کر سکتے۔
گمشدگی سے پہلے ساجد بلوچ کا آخری رابطہ قریبی دوست اور روم میٹ تاج بلوچ کے ساتھ ہوا تھا، جن کے ساتھ ساجد کی اپسالہ جانے سے پہلے ملاقات ہوئی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے تاج بلوچ نے سویڈش پولیس کی تحقیقات کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا ہے، ''پولیس نے اس کیس میں غیر معمولی سستی کا مظاہرہ کیا۔ دو مارچ کو ساجد کے لاپتہ ہونے سے تقریباً ایک ماہ تک ساجد کی فیملی اور دوستوں نے پولیس سے کئی بار اس کی بازیابی کے لیے رابطہ کیا مگر پولیس نے ساجد کی گمشدگی کا سراغ لگانے میں دلچسپی نہیں لی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں خبر شائع ہونے اور بین الاقوامی تنظیموں کے دباؤ پر پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا اور تحقیقات کے دوران معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔‘‘
ساجد بلوچ رواں سال دو مارچ کو سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم سے قریبی شہر اپسالہ جاتے ہوئے پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے تھے اور تقریباً دو ماہ کی گمشدگی کے بعد 23 اپریل کو اپسالہ کے شمالی علاقے میں دریائے فیرس سے ان کی لاش ملی تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
سویڈن میں لاپتہ پاکستانی صحافی ساجد حسین بلوچ کی لاش مل گئی
سویڈن میں پاکستانی صحافی ساجد بلوچ کی گمشدگی، ایک معمہ
بلوچستان میں صحافی کا قتل، صوبائی وزیر کے خلاف تحقیقات
صحافیوں کی عالمی تنظیم ’’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘‘ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ساجد بلوچ کی موت ان کی صحافتی سرگرمیوں کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ بعض میڈیا رپورٹس میں پاکستان کے ریاستی اداروں پر اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے، تاہم سویڈش حکام نے ساجد بلوچ کی موت کی تحقیقات کے بعد قتل کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
ساجد بلوچ کی گمشدگی کے حوالے سے باقاعدہ تحقیقات سویڈن کے نیشنل یونٹ برائے انٹرنیشنل آرگنائزڈ کرائم کے سپرد کی گئی تھیں۔ ریڈیو سویڈن کے مطابق تحقیقات کی انچارج پراسیکیوٹر ارلیکا لنسو نے بتایا ہے کہ تحقیقاتی عمل میں مختلف شواہد کو اکٹھا کیا گیا، جن میں ساجد کی رہائش گاہ اور ذاتی کمپیوٹر کا معائنہ بھی شامل تھا۔ ان کے بقول پوسٹ مارٹم رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور گمشدگی سے پہلے ساجد جن لوگوں سے رابطے میں تھے ان کے بیانات کو بھی تحقیقات کا حصّہ بنایا گیا۔ تحقیقات کے دوران ساجد بلوچ کے قریبی دوستوں، دفتری ساتھیوں اور اہل خانہ کے بیانات بھی ریکارڈ کئے گئے۔
ساجد بلوچ کون تھے؟
پاکستانی صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ساجد بلوچ آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر تھے۔ 2012ء میں پاکستان چھوڑنے سے پہلے ساجد بلوچ انگریزی اخبار دی نیوز اور ڈیلی ٹائمز سے بھی وابستہ رہے۔ بلوچستان کے حوالے سے جبری گمشدگیوں پر تنقید اور ڈرگ مافیا کو بے نقاب کرنے پر ساجد بلوچ کو دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں تو وہ پہلے مسقط اور عمان میں قیام پذیر رہے اور پھر 2017 ء میں سویڈن پہنچ گئے تھے۔
ساجد بلوچ نے سویڈن پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی جو 2019 ء میں منظور ہوگئی تھی۔ سویڈن میں ساجد بلوچ اپسالہ یونیورسٹی میں ایرانی لینگوئجز ڈیپارٹمنٹ میں بلوچی زبان میں ماسٹرز کر رہے تھے اور یونیورسٹی میں عارضی طور پر تدریسی فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ ساجد بلوچ یونیورسٹی میں بلوچی زبان کی لغت مرتب کرنے کے ایک منصوبے کا حصہ بھی تھے۔
ساجد بلوچ کی لاش ابھی تک سویڈش حکام کی تحویل میں ہے۔ ساجد کی گمشدگی اور موت کی تحقیقات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔ استغاثہ نے مقامی میڈیا کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کیس کی تحقیقات کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے، جن سے ساجد بلوچ کی موت کو کسی مجرمانہ سرگرمی کا نتیجہ قرار دیا جا سکے۔ پولیس کی جانب سے موت کی وجوہات کے تعین کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے انکار بھی کر دیا گیا ہے۔