سویڈن نے ڈینش سرحد پر شناختی دستاویزات کی جانچ شروع کر دی
4 جنوری 2016سویڈن کی جانب سے ڈنمارک کی سرحد پر ملک میں داخل ہونے والی کی شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال کا عمل شروع کیے جانے کے کچھ ہی دیر بعد ڈنمارک نے جرمنی کی سرحد پر ایسے ہی اقدامات کا نفاذ کر دیا ہے۔ ڈنمارک کو خطرات تھے کہ اگر مہاجرین کو سویڈن نے اپنے ہاں داخل ہونے سے روک دیا، تو اس کے ہاں ان کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ سویڈن اور ڈنمارک کے ان اقدامات سے یورپ میں شہریوں کی آزاد نقل و حمل کے معاہدے شینگن کی بقا اور مستقبل کے حوالے سے نئے خدشات نے جنم لیا ہے۔
جرمنی اور سویڈن نے اپنے ہاں ریکارڈ تعداد میں مہاجرین کو پناہ دی ہے، تاہم اب اس تازہ پیش رفت کے بعد برلن حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یورپ کا شینگن زون ’خطرے میں‘ ہے۔
جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان مارٹن شیفر نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’نقل و حرکت کی آزادی ایک بنیادی یورپی اصول ہے اور حالیہ برسوں میں یہ یورپی یونین کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔‘‘
پیر چار جنوری سے سویڈن کی جانب سے سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کا عمل نافذ کیے جانے سے ڈنمارک سے سویڈن جانے والی ٹرینوں اور بسوں کو قریب پچاس منٹ کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈنمارک اور سویڈن کو ملانے والے 4.9 میل طویل پل اوریسنڈ پر ڈنمارک کی طرف سویڈش حکام نے چیکنگ کا آغاز کیا۔ اس عمل سے نجی گاڑیوں کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔
ڈنمارک کے وزیراعظم کی جانب سے کہا گیا کہ سویڈش اقدام کے بعد ان کے ملک کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ بھی اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے اقدامات متعارف کروائیں۔ انہوں نے یورپی یونین سے بھی اپیل کی کہ یونین کی بیرونی سرحدوں کو ’غیرجانب دارانہ طور پر‘ محفوظ بنایا جائے۔
یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس قریب ایک لاکھ 63 ہزار مہاجرین نے سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی۔ آبادی کے اعتبار سے یورپی یونین کی کسی رکن ریاست میں مہاجرین کی یہ سب سے بڑی شرح ہے۔ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر ڈنمارک کے راستے سویڈن میں داخل ہوئے۔ جس کے بعد سویڈشن حکومت نے ڈنمارک کے ساتھ اپنی سرحد پر کنٹرول کا عمل متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔
سابق سویڈش وزیرخارجہ کارل بلڈٹ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’شمالی یورپی خطے کے لیے یہ ایک سیاہ دن ہے۔‘‘