سپلائی روٹ بحال لیکن پاک امریکا تعلقات کو ہنوز چیلنجز کا سامنا
5 جولائی 2012امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں پائیدار قیام امن کے لیے پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں بہتری اور اعتماد سازی کا عمل ناگزیر ہے۔ سات ماہ تک نیٹو سپلائی روٹ کی بندش کے بعد اس راستے کا کھولا جانا پاک امریکی تعلقات میں بہتری کی طرف ایک قدم ضرور ہے تاہم ابھی بھی کئی اہم معاملات حل طلب ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں رونما ہونے والے سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کے بعد جب پاکستان نے نیٹو سپلائی روٹ بند کر دیا تھا تو اس وقت بھی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ان دونوں اتحادی ممالک کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار تھے، جس کی وجہ ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے خفیہ آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور ریمنڈ ڈیوس کیس تھے۔
اے پی نے امریکا کے لیے پاکستان کے سابق سفیر طارق فاطمی کے حوالے سے لکھا ہے، ’گزشتہ بارہ سے اٹھارہ ماہ کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر بداعتمادی اور شکوک حاوی ہیں۔ میں ایسے امکان کو مسترد نہیں کروں گا کہ کوئی چھوٹا سے واقعہ معمول پر آتے ہوئے دونوں ممالک کے ان تعلقات کو پھر سے بگاڑ دے‘۔
اسلام آباد حکومت ملک میں طالبان جنگجوؤں کی خونی بغاوت کو کچلنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے تاہم دوسری طرف یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے مسلح جنگجوؤں کو مبینہ طور پر معاونت بھی فراہم کر رہی ہے، جو افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے خلاف مصروف عمل ہیں۔
افغانستان میں فعال جنگجو گروپوں میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ امریکی حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ افغان طالبان کی قیادت اور حقانی نیٹ ورک کے سرکردہ رہنما پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔
واشنگٹن حکومت نے بارہا اصرار کیا ہے کہ پاکستانی حکومت افغانستان سے ملحق اپنے قبائلی علاقوں میں ان جنگجوؤں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کے پاکستانی خفیہ اداروں کے ساتھ روابط بھی ہیں۔ اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتا ہے تاہم اس کے باوجود ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی سے بھی گریزاں ہے، جو واشنگٹن حکومت کے لیے مسلسل الجھن اور پریشانی کی بات ہے۔
ناقدین کے بقول اسی بد اعتمادی کی وجہ سے پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کیے جاتے ہیں تاکہ جنگجوؤں کی قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی پر تشدد کارروائیوں میں خلل ڈالا جا سکے۔ تاہم پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کی قومی سرحدوں کے اندر ایسے تمام تر حملے پاکستان کی ریاستی خود مختاری کے خلاف ہیں۔
ab / mm / ap