سہ جہتی پرنٹر: مستقبل کے اچھوتے امکانات
5 جنوری 2015ماہرین کے مطابق سہ جہری پرنٹرز کے ذریعے مسقبل میں پیچیدہ ڈیزائنوں کو حقیقت کا رنگ دیا جا سکے گا اور دفاعی صنعت یا شاید عالمی اقتصادیات کا ایک نیا در کھل جائے گا۔
متعدد افراد کے خیال میں تھری ڈی پرنٹنگ ایک مذاق سا ہے، جس کے ذریعے پلاسٹک کی اشکال کو حقیقت کا روپ دے دیا جاتا ہے، تاہم اس شعبے میں جس تیزی کے ساتھ ایجادات، بشمول لکڑی اور کپڑے اور دیگر چیزوں سے پرنٹنگ، پیٹنٹ کروائی جا رہی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل کی دنیا میں تھری ڈی پرنٹنگ کا بے انتہا اہم کردار ہوا کرے گا۔
اربوں ڈالر کی دفاعی صنعت اس سلسلے میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے، جس کے ذریعے یونیفارمز، جنگ میں آنے والے زخموں کے علاج کے لیے پٹیاں اور حتیٰ کہ غذا کی پرنٹنگ تک بھی شامل ہے۔
میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے اب فور ڈی یا چہار جہتی پرنٹنگ تک ایجاد کر لی ہے، جس کے تحت کسی مادے کو پانی کے ساتھ تعامل کی صورت میں مختلف اور نئے مواد میں تبدیل کیا جا سکے گا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن ان پرنٹروں کے ذریعے ایسے یونیفارم تیار کیے جا سکیں گے، جن کے رنگ ان کے ماحول کے مطابق تبدیل ہو سکیں گے۔ ان ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں ابتدائی قدم اٹھائے جا چکے ہیں۔
گزشتہ برس برطانوی دفاعی کمپنی بی اے ای سسٹمز نے پہلی مرتبہ ٹورناڈو لڑاکا طیارے میں ایسے ہی پرنٹرز کے ذریعے چھاپا گیا ایک پرزہ نصب کیا۔ اسی کمپنی نے ابھی حال ہی میں ایک اینیمیٹڈ ویڈیو جاری کی ہے، جس میں تھری ڈی پرنٹرز کے ذریعے مستقبل کے امکانات دکھائے گئے ہیں۔ اس ویڈیو میں ایک جہاز کو ایک اور جہاز پرنٹ کرتے دکھایا گیا ہے، جو اس کے سامان کے خانے سے اچانک بیدار ہوتا ہے اور اڑنے لگتا ہے۔
بی اے ای کے تھری ڈی پرنٹنگ ڈویژن کے سربراہ میٹ سٹیوینز کے مطابق، ’یہ ایک طویل المدتی عمل ہے مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ایک دن ہم ان پرنٹروں کی مدد سے پورے کے پورے طیارے بھی بنانے لگیں گے۔‘