1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی اختلافات کے سبب تیونس کے وزیر اعظم مستعفی

16 جولائی 2020

تیونس کے وزیر اعظم الیاس فخ فاخ نے اسلام پسند سیاسی جماعت النہضہ کے ساتھ اختلافات کے سبب اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران کھڑا ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3fO96
Tunesien Parlament spricht Kabinett von Elyes Fakhfakh Vetrauen aus
تصویر: picture-alliance/AP/H. Dridi

تیونس کی حکومت نے وزیر اعظم الیاس فخ فاخ سے متعلق ایک بیان جاری کرکے ان کے استعفے کی تصدیق کی ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل جماعت حرکت النہضہ سے وزیراعظم الیاس فخ فاخ کے شدید اختلافات تھے۔ اسی وجہ سے پارلیمان میں بھی ان کو ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ تا جا رہا تھا۔

وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ''ملک کے مختلف اداروں کے درمیان اختلافات سے بچنے اور اس بحران سے باہر آکر اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔''  تیونس کے صدر قیس سعید کو اب وزارت عظمی کے عہدے کے لیے کسی نئی شخصیت کو تلاش کرنا ہوگا جو نئی حکومت تشکیل دے سکے۔

سیاسی جماعتوں کے درمیان پارلیمان کے اندر شدید اختلافات کا مطلب یہ ہے کہ نئی حکومت کا قیام اتنا آسان نہیں ہوگا اور اگر نئی حکومت جلد ہی قائم نہ ہوسکی تو ممکن ہے کہ جلد ہی دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔

الیاس فخ فاخ نے پانچ ماہ قبل ہی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا تاہم حکومت کے قیام کے بعد سے ہی حرکت النہضہ کے ساتھ ان کی رسہ کشی جاری تھی۔ تیونس میں اسلامی جماعت النہضہ ہی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات اکتوبر میں ہوئے تھے لیکن اس میں کسی بھی جماعت کو ایک تہائی سیٹوں سے زیادہ نشستیں نہیں ملی تھیں جس کی وجہ سے ایک مستحکم حکومت کا قیام مشکل تھا۔

Tunesien Präsident Kais Saied
تیونس کے صدر قیس سعید کو اب وزارت عظمی کے عہدے کے لیے کسی نئی شخصیت کو تلاش کرنا ہوگاتصویر: picture-alliance/Photoshot/Handout Tunisian Presidency

47 سالہ الیاس فخ فاخ  ایک چھوٹی سوشل ڈیموکریٹک جماعت کے سربراہ ہیں۔ وہ پہلے ملک کے وزیر خزانہ تھے۔ کئی نجی کمپنیوں میں ان کے شیئرز ہیں اور اس بارے میں ان کے خلاف ایک انکوائری بھی چل رہی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے سبب تیونس کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے جس میں فوری طور بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تاہم اس سیاسی بحران کی وجہ سے معاشی اصلاحات کا عمل بھی اب تاخیر کا شکار ہوگا۔ حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ تیونس نے بڑی کامیابی کے ساتھ کووڈ 19 کی پہلی لہر پر قابو پایا ہے۔

سن 2011 میں عرب بہاریہ کا آغاز تیونس ہی سے ہوا تھا اور اس وقت عوامی انقلاب کے باعث طویل عرصے سے برسر اقتدار زین العابدین بن علی اقتدار سے الگ ہو گئے تھے۔ تاہم اس انقلاب کے بعد قدامت پسند جماعت النہضہ اور سیکولر جماعت نداء کی حکومتوں کے دوران معاشی اصلاحات نہ ہونے کے سبب بالخصوص نوجوان تیونسی مایوسی کا شکار ہیں۔

ص ز / ج ا (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں