سیلاب زدگان کی سرکاری عمارات سے بے دخلی
25 اگست 2010اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کے حالیہ سیلابوں کے 20 ملین متاثرین میں سے کم از کم 5 ملین کو اب بھی سر چھپانے کی جگہ میسر نہیں ہے۔ ہزاروں افراد سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں اور غذا اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ سرکاری عمارتوں میں پناہ لینے والے سینکڑوں افراد کو جلد ہی ان عمارتوں سے بے دخل ہونا پڑے گا۔
پشاور کے ایک اسکول کا سین
رات کے گیارہ بجے ہیں۔ سیلاب سے متاثر ہونے والے عمر رسیدہ افراد اور بچے پشاور کے ایک اسکول کے گیٹ کے باہر بیٹھے ہیں۔ اس وقت بہت گرمی ہے اوراس علاقے میں 4 گھنٹوں سے بجلی نہیں ہے۔ اس اسکول کے اندر کلاس رومز میں عورتیں زمینوں پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ ستاسی سالہ خورشیدہ بی بی کے دو بیٹوں اورتین بیٹیوں کو سیلاب کے بے رحم ریلے بہائے لئے گئے۔ وہ اپنے بچوں اور گھر بار سے محروم ہو چکی ہے۔ وہ کہتی ہے’’میرے گھر کی طرح کسی کا گھر نہیں تھا۔ میں نے اسے اپنے غریب بچوں کے لئے تعمیر کیا تھا۔ سیلاب میں میرا گھرنیست و نابود ہو گیا۔ کاش میں دوبارہ اپنے گھر میں رہ سکوں۔ آخر پرندے بھی درختوں پر اپنا گھونسلا بنا کر اُسی میں رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
خورشیدہ بی بی نے اپنی زندگی میں دوسری بار سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گزشتہ مرتبہ حکومت متاثرین کے ساتھ اس بار سے زیادہ تعاون کررہی تھی۔ اُن کے گھر کی تعمیر نوء کے اخراجات بھی حکومت نے ادا کئے تھے۔ خورشید بی بی کے بقول’ اس بار حکومتی اہلکاروں کا رویہ بہت سخت ہے۔ وہ ہمیں اس اسکول کو خالی کرنے کا الٹیمیٹم دے چُکے ہیں جبکہ انہیں معلوم ہے کہ میرے بچوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر ہم نے اسکول خالی نہیں کیا تو وہ ہمیں دھکے دے کر نکال دیں گے‘۔
اس اسکول میں تقریباً 50 خاندانوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ ان میں سے زیادہ ترکے پاس سونے کے لئے چادر تک نہیں۔ ان کے پاس خلوت کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
انتالیس سالہ گُل افضل کی بیوی سیلاب میں ہلاک ہو گئی ہے۔ کسی طرح اُس نے اپنے بچوں کو بچا لیا۔ اُس کا ایک جنرل اسٹور تھا جو مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ کبھی نہایت پُر سکون اور خوشگوار زندگی گزارا کرتا تھا تاہم حالیہ ناگوانی آفت کے آتے ہیں چند منٹوں میں اُس کی زندگی ایک المیہ بن کر رہ گئی ہے۔ وہ کہتا ہے’ ہمیں شدید مشکلات کا سامنا ہے حکام نے ہمیں اسکول خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ کاش میرے پاس زمین کا چھوٹا سا حصہ ہوتا جہاں میں ایک خیمہ گاڑ لیتا۔ میں یہاں ایک لمحہ نہ رہتا۔ حکومت نے سوات اور قبائلی علاقوں کے پناہ گزینوں کے لئے کیمپس قائم کئے ہیں تاہم ہم جیسے لُٹے پٹے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہم اب کبھی بھی کمانے کے قابل نہیں ہوں گے‘۔
ساٹھ سال سے زائد عمر کے محمد جان اور اُس کی بیوی اپنے گھر بار سے محروم ہو چُکے ہیں۔ محمد جان کے بقول’ اعصابی دباؤ اور پریشانیوں کے سبب ہم شدید سر اور کمر کے درد میں مبتلا ہیں۔ چند سیکنڈز میں ہماری زندگی تہ و بالا ہو کر رہ گئی۔ اب ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے‘۔
سرکاری عمارتوں میں پناہ لینے والوں کے ساتھ سلوک
چند متاثرین کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے مختلف سرکاری عمارتوں میں پناہ لئے ہوئے نہتے انسانوں کو زورزبردستی بے دخل کرنا شروع کر دیا ہے۔
خالدہ رضیہ کے شوہر اور تین بیٹے سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔ اُن کے چوتھے بیٹے کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ یہ ایک اور خطرہ ہے جس سے سیلاب زدگان دو چار ہیں۔
رپورٹ: مدثر شاہ/ کشور مصطفی
ادارت: عاطف بلوچ