سیلاب زدہ علاقے اب بیماریوں کی زد میں
10 اگست 2010لوگوں کی بڑی تعداد ہیضہ ، ملیریا اور الرجی کا بھی شکار ہے ۔ کوٹ ادو کے ایک رہائشی بابا کرامت نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دور دراز کے وہ علاقے جہاں پر شدید بیماریوں کے شکار لوگوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں پر علاج کی مناسب سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ پانی میں ڈوبی ہوئی بستیوں کے باہر خشک جگہوں پر میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں لیکن پانی میں پھنسے ہوئے یا اونچی جگہوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔
اگرچہ سرکاری حلقے سیلاب کے متاثرین کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ لیکن مظفر گڑھ میں ڈیرہ غازی خان روڈ پر موجود شوکت نامی ایک شخص نے بتایا کہ اس کی بیوی کو شوگر ہے اور وہ پنچاب ورکرز سکول میں لگائےگئے ایک سرکاری میڈیکل کیمپ میں گیا تھا وہاں کے حکام کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس سیلابی بیماریوں کی دوائیں توہیں شوگر کی نہیں۔ شوکت نے بتایا کہ اس کا گھر بار سیلاب کی نذر ہو گیا اور اس کے پاس بیوی کی بیماری کیلئے دوا خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں سے لوگوں کے سانپوں اور بچھووں سے ڈسے جانے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔
پانی میں ڈوبے ہوئے تحصیل ہسپتال کوٹ ادو کے میڈیکل سپر یٹنڈنٹ ڈاکٹر اعجاز گورمانی سے ایک ریلیف کیمپ میں ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سانپوں اور بچھووں کے ڈسنے کی وجہ سے بیمار ہونے والے مریضوں کیلئے ویکسین تو موجود ہے لیکن پچھلے کئی دنوں سے بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ ویکسین اب موثر نہیں رہی ہے۔ ان کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریوں کا ایک بڑا ریلا آنے والا ہے اور حکومتی ایجنسیاں اس سلسلے میں تمام ضروری انتظامات کر رہی ہیں۔
زمینی راستوں کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے مریض ہسپتال اور امدادی کارکن متاثرہ علاقوں میں نہیں جا پا رہے ہیں۔ ایمبولینسیں کھڑی ہیں۔خاص طور پر بیماریوں کی شکار عورتوں اور بچوں کی صورتحال بہت افسوس ناک ہے۔
میں نے کوٹ ادو مظفر گڑھ روڈ پر ایک عورت کو روتے ہوئے بھاگتے دیکھا، اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں چند ماہ کا ایک بچہ اٹھا یا ہوا تھا جس کو ڈرپ لگی ہوئی تھی وہ بتا رہی تھی کہ اس کے بچے کو ڈاکٹروں نے بیماری کی سنگینی کے پیش نظر مظفر گڑھ لے جانے کامشورہ دیا ہے لیکن سیلاب کی وجہ سے سارے راستے بند ہیں اُسے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کہاں اور کیسے جائے، وہ دوہائیاں دیتی جا رہی تھی کہ کوئی ہے جو اُس کے بچے کو بچا لے۔ آس پاس کھڑے چند لا چار لوگ آنکھوں میں آنسو لئےاپنی بے بسی کا اظہار کر رہے تھے ۔
وہ لوگ جو دشور گزار راستوں سے ہو کر محفوظ مقامات پر ریلیف کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں ان کی صورتحال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ مظفر گڑھ کے ضلعی ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹرآصف نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان میں موجود ریلیف کیمپ میں اس وقت 6 ہزار لوگ ہیں ان میں سے بہت سے موسمی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے صرف ایک دن میں ایک ہزار کے قریب سیلاب زدگان کا معائنہ کر کے ان کو دوائیں دی ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں کئ لوگوں کے جسموں پر سرخ رنگ کے دھبے نظر آئے ان لوگوں نے الرجی کی دوائی نہ ملنے کی شکایت کی۔
ڈاکٹر انتظار حسین بٹ جنوبی پنچاب میں غیر سرکاری طور پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان کو طبی امداد کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے بچنے کیلئے آگاہی فراہم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ان کے مطابق سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس وقت ذہنی صدمے سے دو چار ہے ۔ اس کیفیت سے نکالنے کیلئے انہیں ماہرین نفسیات کی کاونسلنگ کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق سیلاب زدگان کو سائیکولوجیکل ٹراوما سے نکالنے کیلئے امید کا پیغام دینے کی ضرورت ہے اور قوم کو سیلاب زدگان کو صحت مند زندگی کی طرف واپس لانے کیلئے قومی یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مظفر گڑھ میں موجود صوبائی وزیر صحت فواد حسن فواد نے بتایا کہ صوبے کے محکمہ صحت کی ساری انتظامیہ اس وقت جنوبی پنجاب کے کیمپ آفس میں موجود ہے اور امدادی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایمر جنسی ڈیوٹی کیلئے دوسرے اضلاع سے بھی ڈاکٹرز منگوا لئے گئے ہیں۔ تمام ریلیف کیمپوں میں میڈیکل کیمپس لگا دئے گئے ہیں ۔ موبائل ایمبو لینس سروس بھی کام کر رہی ہے۔ بڑی تعداد میں منرل واٹر خرید کر سیلاب زدہ علاقوں میں بھجوا یا جا رہا ہے ۔ تمام آفت زدہ علاقوں کے طبی حکام کو اپنے اپنے علاقوں سے بھی ادویات خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ادھر بین الاقوامی ادارے بھی سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچ چکے ہیں ۔ یونیسف جنوبی پنجاب میں قائم ریلیف کیمپوں میں سینکڑوں طہارت خانے بنوا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی طرف سےبھجوایا جانے والا طبی سامان (میڈیکل کٹس) بھی یہاں پہنچ چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ٹیمیں بھی سیلاب زدگان کو فراہم کی جانے والی طبی سہولتوں کا جائزہ لینے کیلئے اس وقت جنوبی پنجاب میں موجود ہے۔
پنجاب کے سیکرٹری صحت فواد حسن فواد کہتے ہیں کہ اس سب کچھ کے باوجود یہ بات حقیقت ہے کہ سیلاب زدگان کے سارے دکھ دور نہیں کئے جا سکے ہیں۔ کیونکہ یہ تباہی اتنی بڑی ہے کہ اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔ ایک سماجی کارکن زاہد لطیف کا کہنا تھا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ سیلابی ریلے سے بچ رہنے والے لوگوں کو کہیں بیماریوں کا ریلا موت کی طرف نہ دھکیل دے ۔
تنویر شہزاد :کوٹ ادو ، مظفر گڑھ ،جنوبی پنجاب۔
ادارت: کشور مصطفیٰ