سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کا کام سست رفتاری کا شکار
26 جولائی 2011گزشتہ برس جولائی اور اگست میں مون سون بارشوں کی غیر معمولی شدت کے نتیجے میں آنے والا سیلاب پورے ملک کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوا۔ تعمیر نو کے کاموں میں متعدد امدادی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کے ماہی گیر اب بھی اُس خوفناک منظر کو نہیں بھلا پائے ہیں، جب سیلاب کی زوردار لہریں دریائے سندھ کے پانیوں میں اپنی جگہ بناتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ 80 سالہ کاندوکواپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا۔
سیلاب کی لہریں مچھیروں کے جھونپڑے، اُن کی کشتیاں، مچھلی پکڑنے والے جال، غرضیکہ ان کی تمام متاع حیات بہائے لیے چلی گئیں۔ کاندو مچھیروں کے چالیس خاندانوں کا نمائندہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سیلاب کی زد میں آنے والے یہ افراد محض تھوڑا سا سونا اور اپنے شناختی کارڈ بچا سکے۔ تاہم کچھ عرصے سے مچھیروں کی یہ برادری دریائے سندھ کے کناروں کی طرف لوٹ چکی ہے اور وہاں مچھلی کے شکار کے ذریعے پھر سے اپنا روزگار کمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستانی امدادی تنظیم HANDS، جرمن ادارے ’میڈیکو انٹر نیشنل‘ کے اشتراک سے کام کرتی ہے۔
اس نے ان مچھیروں کو لکڑی کی کشتیاں اور مچھلی پکڑنے والے جال فراہم کیے ہیں۔ ’ ہمیں موٹر بوٹس کی ضرورت ہے تاکہ ہم پانی میں آگے جا سکیں اور ہمیں مچھلی پکڑنے کے لیے مزید بڑے جال درکار ہیں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑ کر زیادہ پیسے کما سکیں۔‘یہ الفاظ ہیں، مہمند نامی مچھیرے کے، جو کہتا ہے کہ متاثرہ گھرانوں کو پکے مکانوں کی ضرورت ہے اور ان کے بچوں کو اسکول جانا چاہیے۔ مہمند تین دیگر مچھیروں کے ساتھ مل کر کشتی استعمال کرتا ہے۔ مچھلیاں پکڑ کر یہ مچھیرے قریبی شہر چلے جاتے ہیں اور وہاں جا کر مچھلیاں بیچتے ہیں۔
پاکستان کی امدادی تنظیم HANDS کے ایک سرگرم کارکن اعجاز کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین اپنی ضروریات زندگی کے حصول کے لیے حکومتی اداروں کی طرف رُخ نہیں کرتے۔ اُن کے بقول’ غریب عوام کے لیے تو حکومتی اہلکاروں تک رسائی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ علاقائی انتظامیہ کا سربراہ بند دروازوں کے پیچھے بیٹھا رہتا ہے اور دروازے کے سامنے کھڑے اہلکار درخواست گزاروں کو اندر جانے سے روک رہے ہوتے ہیں‘۔
سندھ کے ایک ڈسٹرکٹ آفیسر سعید جمانی کو نہ تو اس بات سے کو ئی مطلب ہے کہ سیلاب زدگان کی درخواسیتں کس حد تک انتظامیہ تک پہنچتی ہیں، نہ اس امر سے کہ تعمیر نو کی کیا صورتحال ہے۔
وہ کہتے ہیں،’سرکاری ملازمین کو قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا پڑتا ہے جبکہ امدادی کارکنوں کو ایسا نہیں کرنا پڑتا۔ تعمیر نو کے لیے اربوں روپوں کی ضرورت ہے۔ اتنے پیسے نہ تو صوبائی، نہ ہی ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے پاس ہیں‘۔
رپورٹ:زابینے ماتھائے/ کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی