سینسر شپ کے خلاف احتجاج، اخبارات سیاہ
21 اکتوبر 2019آج پیر 21 اکتوبر کو آسٹریلیا میں چھپنے والے اخبارات، سیاہ اولین صفحات اور ایک میڈیا مہم کے ذریعے ملکی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان قوانین کو تبدیل کرے، جن کے سبب صحافت پر فوجداری دفعات لگ سکتی ہیں اور خفیہ معلومات فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔
'سڈنی مارننگ ہیرالڈ‘ نے معلومات پر پابندی کا سبب بننے والے قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے اور اسے صحافیوں کے حقوق پر ایک حملہ قرار دیا ہے۔
آسٹریلیا کی 19 میڈیا آرگنائزیشنز اور جرنلسٹ یونینز نے مشترکہ طور پر ایک مہم شروع کی ہے جسے 'یوور رائٹ ٹو نو‘ یعنی 'جاننے کا آپ کا حق‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مہم دراصل رواں برس جون میں ہونے والے ایک واقعے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں وفاقی پولیس نے سرکاری براڈکاسٹر کے ایک دفتر اور ایک رپورٹر کے گھر پر چھاپے مارے تھے۔ پولیس کو لیک شدہ حکومتی دستاویزات کی تلاش تھی۔ اس معاملے میں ایک سابق فوجی وکیل پر مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ کئی دیگر صحافیوں پر مقدمات قائم ہو سکتے ہیں۔
اس مہم میں چھ قانونی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جن میں اس نظام میں تبدیلی بھی شامل ہے جس کے ذریعے کسی دستاویز کو خفیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
حکومت آخر کیا چھپانا چاہتی ہے؟
میڈیا تنظیموں کے اس اتحاد کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران ایسے 60 قوانین پاس کیے گئے ہیں جن کے ذریعے صحافیوں کے کام کی آزادی پر قدغنيں لگی ہیں اور خفیہ معلومات عام کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
آسٹریلیا کے قومی نشریاتی ادارے اے بی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ اینڈرسن کے مطابق، ''آسٹریلیا دنیا کی سب سے زیادہ رازداری کی حامل جمہوریت بننے کے خطرے سے دو چار ہے۔‘‘
نیوز کارپوریشن آسٹریلیشیا کے ایگزیکٹیو چیئرمین مائیکل مِلر نے ایک ٹوئیٹ میں سوال کیا ہے، ''آسٹریلینز کو یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ مجھ سے کیا چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘‘
اس مشترکہ میڈیا مہم کی ویب سائٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے رازداری برتنے کی چند مثالوں میں بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والے ایسے اداروں کی تفصیلات دینے سے گریز بھی شامل ہے جہاں ان بزرگ افراد کے ساتھ نامناسب رویہ روا رکھا گیا۔ اس کے علاوہ آسٹریلوی حکومت اپنے شہریوں کی خفیہ نگرانی اور آسٹریلوی زمین کو غیر ملکیوں کو فروخت کرنے جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔
ا ب ا / ع ا (اے پی، ڈی پی اے)