سینکڑوں بنگلہ دیشی ہندو بھارت میں داخل ہونے کی کوشش میں
8 اگست 2024طلبہ کی قیادت میں پرتشدد احتجاجی تحریک کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اپنے عہدے سے پیر کے روز استعفی دینا پڑا تھا۔ تختہ الٹ جانے کے بعد وہ بنگلہ دیش سے فرار ہوکر بھارت پہنچ گئیں اور فی الحال دارالحکومت دہلی سے قریب ہنڈن ایئر بیس پرسخت سکیورٹی میں مقیم ہیں۔ نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ کسی یورپی ملک میں باضابطہ سیاسی پناہ ملنے تک وہ بھارت میں رہ سکتی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حسینہ کی بے دخلی کے بعد ہندوؤں کے ملکیت والے کچھ کاروباروں اور گھروں پر حملے کیے گیے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حملوں کا نشانہ بنائے جانے والے شیخ حسینہ کے حامی ہیں۔
بنگلہ دیش کے سیاسی حالات اور بھارت کو درپیش چیلنجز
بنگلہ دیش کے اصل مسائل اب شروع ہوئے ہیں!
بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل امیت کمار تیاگی نے اے ایف پی کو بتایا، "کئی سو بنگلہ دیشی شہری، جن میں زیادہ تر ہندو ہیں، بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کی سرحد پر مختلف مقامات پر جمع ہو گئے ہیں۔
دو سو سے زیادہ لوگ ریاست مغربی بنگال میں بھارت بنگلہ دیش سرحد کے "قریب کھڑے" ہیں۔
تیاگی نے مزید کہا کہ ریاست کے جلپائی گوڑی ضلع میں، 600 سے زیادہ بنگلہ دیشی نو مینز لینڈ میں جمع ہیں۔
انہوں نے کہا، "چونکہ یہاں کوئی باڑ نہیں ہے، اس لیے بی ایس ایف کے اہلکاروں نے انہیں سرحد سے دور رکھنے کے لیے ایک انسانی ڈھال بنائی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ افسران نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں گولیاں بھی چلائیں۔
بھارت فکر مند
چھہترسالہ حسینہ، جو 2006 سے اقتدار میں تھیں، ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک چلنے والے ہلاکت خیز مظاہروں کے بعد پیر کے روز مستعفی ہو گئیں۔
اس کے بعد بنگلہ دیش میں سیکورٹی کی صورتحال ڈرامائی طور پر بہتر ہوئی ہے لیکن ان کے حامیوں اور پارٹی عہدیداروں پر انتقامی حملوں کی اطلاعات ہیں۔
بنگلہ دیش کی ہندو بدھسٹ کرسچن یونٹی کونسل نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ پیر کو کم از کم 10 ہندو مندروں پر "شرپسندوں" نے حملہ کیا تھا۔
بنگلہ دیش: فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، طلبہ رہنما
ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ملک کے جنوبی ضلع باگیرہاٹ میں کمیونٹی کے ایک شخص کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
بھارت میں، جہاں حسینہ نے پناہ لے رکھی ہے، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے منگل کو کہا کہ ان کی حکومت اقلیتوں کے حوالے سے "صورتحال کی نگرانی" کر رہی ہے۔
انہوں نے ہندووں کو لاحق پریشانی پر فکرمندی کا بھی اظہار کیا۔
مسلمان مندروں کی حفاظت کر رہے ہیں
بنگلہ دیش میں بدامنی کے دوران طلباء اور دیگر مسلمان مندروں اور گرجا گھروں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا فوٹیج اور تصاویر میں طلباء کو ہندو مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کی حفاظت کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک مسلمان شخص کو ہندوؤں کی عبادت گاہ ڈھکیشوری مندر کی حفاظت کرتے دیکھا گیا۔
بنگلہ ٹائیگرز کرکٹ کے سوشل میڈیا مینیجر سیف احمد نے کہا کہ ''ایک مسلمان شخص کو ڈھکیشوری مندر کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے اور ہندو مندر کو ان تمام شریر لوگوں سے بچاتے ہوئے دیکھا جو اقلیتوں اور عوامی املاک پرحملہ کرکے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔"
حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے مندروں اور گرجا گھروں پر حملوں کی اطلاعات کے درمیان تمام بنگلہ دیشیوں کو "مذہب اور سیاست سے قطع نظر، امتیازی تشدد سے" تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی، اے پی)