سینیئر اہلکار کا استعفیٰ، نئے طالبان قائد کے مسائل بڑھ گئے
4 اگست 2015مُلا عمر کے انتقال کی تصدیق ہونے کے بعد طالبان کی طرف سے فوری طور پر مُلا محمد اختر منصور کو اپنا نیا امیر بنانے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس انتخاب پر طالبان کے کئی سینیئر رہنما ناراض ہیں کہ مُلا منصور اختر نے دو برس سے زائد عرصے تک مُلا محمد عمر کے انتقال کی خبر کو چھپائے رکھا۔
طالبان کی قیادت کے حوالے سے پیدا ہونے والے اس بحران کے باعث طالبان میں دھڑے بندیوں کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور اس کے علاوہ طالبان کے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں، جن کا مقصد ملک میں گزشتہ 13 برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہے۔
مُلا منصور اختر کو کوئٹہ شُوریٰ کی طرف سے امیر مقرر کرنے کے اعلان پر اس گروپ کے کئی ارکان کی طرف سے مخالفت کی گئی ہے جن میں مُلا عمر کا بھائی بھی شامل ہے۔ منگل چار اگست کو طالبان کے ایک اعلیٰ اہلکار سید محمد طیب آغا کی طرف سے اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ڈائریکٹر کے عہدے سے الگ ہو رہے ہیں۔ اس دفتر کو طالبان کی طرف سے امن مذاکرات کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
آغا کے مطابق وہ مُلا عمر کے انتقال کی خبر کو چھپائے جانے کو، جس کی ذمہ داری ملا منصور اختر پر عائد کی جاتی ہے، ’متعلقہ لوگوں کی طرف سے ایک تاریخی غلطی‘ تصور کرتے ہیں۔ محمد طیب آغا کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں غالباً پاکستان میں عمل میں آنے والے نئے امیر کے انتخاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’ملک سے باہر ایک شخص کو امیر چنا جانا، ان لوگوں کی طرف سے جو ملک سے باہر رہتے ہیں، ایک تاریخی غلطی ہے۔‘‘ اس بیان میں محمد طیب آغا کی طرف سے مزید کہا گیا ہے کہ نئے امیر کی تقرری طالبان کی موجودگی میں ملک کے اندر ہی کی جائے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ محمد طیب آغا کی طرف سے آنے والے بیان کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ قبل ازیں دوحہ آفس کے ارکان کی طرف سے مُلا منصور اختر کے اس فیصلے پر تنقید کی گئی تھی کہ انہوں نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان گزشتہ ماہ پاکستان میں ہونے والے مذاکرات میں اپنے نمائندے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔