1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیکیورٹی اقدامات ، بھارت میں باڈی اسکینر

22 جنوری 2010

بھارت میں سیکیورٹی کے نام پر ہوائی اڈوں پر فل باڈی اسکینر ٹیکنالوجی متعارف کروائے جانے کے بعد ملک بھر میں ایک نئی اخلاقی اور قانونی بحث شروع ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/Leed
تصویر: AP

بھارت میں دہشت گردوں کے ذریعہ طیاروں کے اغوا کرنے کی کوشش سے متعلق انٹلیجنس رپورٹوں کے بعد میں ہوائی اڈوں پر سیکورٹی مزید سخت کردی گئی، تو وہیں پورے جسم کی تصویر لینے والی نئے اسکینر ٹیکنالوجی کے استعمال سے قانونی اور اخلاقی بحث بھی چھیڑ گئی ہے۔

بھارت میں یوں تو یوم جمہوریہ اور یوم آزادی جیسے مواقع پر سیکورٹی میں خاصا اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن دہشت گردوں کے ذریعہ بھارتی طیاروں کے اغوا اور پیرا گلائڈروں کے ذریعہ ممکنہ حملے کے متعلق انٹلی جنس رپورٹوں کے بعد ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی میں غیرمعمولی اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس سے مسافروں کو کافی پریشانی ہورہی ہے۔

دہلی کے اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ممبئی جانے والے ایک مسافر نے کہا : ” لمبی لمبی قطاریں ہیں‘ سہولیات کم ہیں۔ سیکورٹی کے نام پر جو سختی کی جارہی ہے اس سے ہمیشہ سفر کرنے والے ہم جیسے مسافروں کو کافی پریشانی ہورہی ہے۔“ ایک دوسرے مسافر نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی جیبوں سے کنجیوں کا گچھا نکلوانا‘ موبائیل فون نکلوالینا‘ اس سے پریشانی بڑھ جاتی ہے“۔

Röntgen Kontrolle Sicherheit Flughafen
اس مشین سے گزرنے والا شخص پورے کپڑوں میں ملبوس ہونے کے باوجود اسکرین پر برہنہ دکھائی دیتا ہے۔تصویر: AP

لیکن مسافروں کی ناراضی کی ایک اور وجہ دہلی ہوائی اڈے پر لگائی جانے والی فل باڈی اسکینر ٹیکنالوجی ہے۔ فی الحال مسافروں کو اس سے گزرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جارہا ہے اور وہ رضاکارانہ طور پر ہی اس مشین سے گزر رہے ہیں ۔ اس مشین سے گزرنے والا شخص پورے کپڑوں میں ملبوس ہونے کے باوجود اسکرین پر برہنہ دکھائی دیتا ہے۔ ایک مسافر نے خفگی کا ظاہر کرتے ہوئے کہا: ”میں نہیں سمجھتا کہ سیکیورٹی کے نام پرکسی کو اس بات کی اجازت ہووہ کسی کی پرائیویسی میں اتنا جھانکے کہ وہ کپڑے اترے ہوئے حالت میں اسے دیکھ سکے“۔

دہلی ہوائی اڈے پر ابھی تجرباتی طور پر ایک فل باڈی اسکینر مشین نصب کی گئی ہے لیکن مرحلہ وار ایسی ہی مشینیں ملک کے دیگر ہوائی اڈوں پر بھی نصب کی جائیں گی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اپنے کئی ہوائی اڈوں پر اس طرح کے فل باڈی اسکینرز کا استعمال کررہے ہیں۔ صرف دہلی اور ممبئی کے ہوائی اڈوں کے لئے ہی 125 سے 200 ایسی مشینیں لائی گئی ہیں۔

یہ ایکسر ے مشین ہر اسکین میں تقریبا 10 مائیکرو ریم تابکاری پیدا کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مشین کے ذریعہ امیج حاصل کرنے کے لئے کم انرجی والے ایکس رے یا گاما رے کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے صحت کو کوئی خاص نقصان پہنچنے کا خدشہ بہت کم ہے۔ یہ ایکسرے مشین جسم میں چھپا کر رکھے گئے کسی بھی منشیات یا دھماکہ خیز مادے کی نشاندہی کردیتی ہے۔

مشہور وکیل اوشا پروہت کہتی ہیں کہ کسی شخص کی پرائیویسی کے مقابلے سیکیورٹی زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے تاہم کہا : ’’ ایسی مشینوں کے استعمال سے پہلے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ کوئی شخص اگر کسی کی تصویر کا غلط استعمال کرے تواسے سزا دی جاسکے۔ بھارت میں فی الحال اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔‘‘

Körperscanner / Nacktscanner / Manchester
ان مشینوں کا استعمال دنیا بھر میں اخلاقی بحث کا سبب بنا ہوا ہےتصویر: AP

حقوق انسانی کے علمبردار اور ساوتھ ایشین ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے ڈائریکٹر روی نائر کے خیال میں یہ سب بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کا کھیل دکھائی دیتا ہے۔روی نائر کے مطابق یہ بنیادی طور پر الیکٹرانک آلات کے ذریعہ کسی کو ننگا کرنے کے مترادف ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے اس ٹکنالوجی کو کافی سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے۔

فائر اینڈ سیکورٹی ایسوسی ایشن آف انڈیا کے پرمود راؤ کا کہنا ہے کہ فل باڈی اسکینرز کے استعمال پر لوگوں کا اعتراض کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکہ نے بھی جب پہلی مرتبہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا تھا تو لوگوں نے اعتراض کیا تھا لیکن وہاں کے حکام نے حکمت کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرلیا اور اب اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سیکورٹی کے نام پر بھارت جیسے مشرقی اقدار والے ملک میں لوگ اس نئی ٹکنالوجی کو ہضم کرسکیں گے یا نہیں۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں