شارلٹس وِل میں تشدد کیا ٹرمپ کا امریکا ہے؟
14 اگست 2017میں نے یونیورسٹی آف ورجینیا میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور وہاں رہائش کے دوران میں اکثر اسی جگہ پر بیٹھ کر کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا، جہاں جمعے کے روز نسل پرستانہ اور نازی طرز کے نعرے بلند کر کے ہنگامہ کر رہے تھے۔
یہ ہنگامہ آرائی یونیورسٹی آف ورجینیا کے مرکزی کیمپس کے اس گارڈن میں ہوئی، جسے وہاں ’دی لان‘ پکارا جاتا ہے۔ اس جامعہ کے بانی ’آزادی کے اعلامیے‘ کے مصنف اور امریکا کے تیسرے صدر تھومس جیفرسن تھے۔
جیفرسن نے بھی اپنے دور میں ایک غلام رکھا ہوا تھا اور ان کا موقف تھا کہ ’اخلاقی برائی کے باوجود عارضی طور پر غلام رکھنا ضروری ہیں۔‘‘ مگر انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا، ’’تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘
اس تیسرے امریکی صدر نے کہا تھا، ’’امریکا میں حکومت اکثریت نہیں بناتی بلکہ وہ اقلیت بناتی ہے، جو اس سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہے۔‘‘
شارلٹس وِل میں پش آنے والے یہ تازہ واقعات امریکی اکثریت کی خواہشات پر حملہ اور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان سفید فام نسل پرستوں کو کس محرک نے شہہ دی کہ وہ نازی جھنڈے اٹھا کر اس تعلیمی مقام پر چڑھ دوڑیں اور وہ کیا سوچ تھی کہ وہ اس بابت اپنے مخالف احتجاج کرنے والوں کے خلاف مشتعل ہو جائیں؟ اس مقام پر ایک شخص نے نسل پرستوں کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے شرکا پر گاڑی چڑھا دی، جس کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک ہو گئی۔
اس سوال کا جواب ہے کہ شارلٹس ولِ کے مقامی رہائشیوں کی منتخب حکومت اس شہر میں جنرل رابرٹ ای لی کا مجسمہ ہٹانا چاہتی ہے، جو امریکا میں سفید فاموں کی نسلی برتری کے بیانیے سے عبارت ہے۔ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان نسل پرستوں کی اس شہر میں آمد اور یہاں پرتشدد احتجاج کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ ’تم ہماری جگہ نہیں لے سکتے بلکہ ہم اکثریت کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔‘‘
مگر امریکا اس گہری کھائی میں کیسے جا پہنچا؟ اس سوال کے جواب کے لیے آپ کو یونیورسٹی آف ورجینیا یا کسی اور جامعہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کی ضرورت نہیں۔ جواب سادہ سا ہے، پچھلے برس سے ڈونلڈ ٹرمپ مختلف مواقع پر امریکی شہریوں کی اکثریت کے برخلاف سخت قسم کے بیانات دیتے آئے ہیں اور ہر نئے دن صدر ٹرمپ کی جانب سے ایسا ہی کوئی نیا پیغام اس مظہر کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔