شام: ایمرجنسی کا خاتمہ لیکن مظاہرے جاری
20 اپریل 2011اس نئے قانون کے مطابق اب شام میں مظاہرے کرنے کے لیے پہلے حکومت سے اجازت طلب کرنا لازمی ہو گا۔ کابینہ کی طرف سے حتمی منظوری ملنے کے بعد اب اس قانون پر صدر بشار الاسد کے دستخط ہونے سے یہ نافذ العمل ہو جائے گا۔
بشارالاسد کی کابینہ نے ایک دوسرے قانون کے تحت ملک میں اسپیشل سکیورٹی کورٹ کو بھی تحلیل کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس خصوصی عدالت میں سیاسی قیدیوں کے خلاف مقدمات کی آزادانہ اور منصفانہ سماعت ممکن نہیں تھی۔
دوسری طرف ملک میں ہنگامی حالت ختم کرنے سے متعلق مسودہء قانون کی منظوری کے باوجود ملکی سکیورٹی فورسز مظاہرین کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئے ہیں۔ حکومت مخالف مظاہرین کے دیرینہ مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ملک میں نافذ ایمرجنسی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔ تاہم منگل کو اس اطلاع کے بعد کہ بشار الاسد کی کابینہ نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا ہے، مظاہرین نے کہا کہ جب تک ان کے دیگر مطالبات بھی تسلیم نہیں کیے جاتے، تب تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
بانیاس میں مظاہرین نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے شہریوں کو دیگر مراعات بھی فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قیدیوں کی رہائی، آزادی رائے اور کثیر الجماعتی نظام جیسے مطالبات کے پورا نہ ہونے تک وہ اپنا دھرنا اور احتجاجی تحریک جاری رکھیں گے۔ شام میں 1963ء میں بعث پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ اس دوران عوامی اجتماعات، آزادی رائے اور دیگر کئی بنیادی انسانی حقوق بھی معطل رہے۔
دوسری طرف شامی شہر حمص میں عینی شاہدین نے خبر رساں اداروں کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کر کے کم ازکم چار افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق شام میں شروع ہونے والی سول نافرمانی کی تحریک کے دوران کم ازکم دو سو افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
اگرچہ بشار الاسد کی کابینہ کی طرف سے سیاسی اصلاحات سے متعلق نئے قوانین منظور کیے جانے کے بعد بھی مظاہرین نے خفگی کا اظہار کیا ہے تاہم دوسری طرف برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے اسے ایک درست قدم قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ولیم ہیگ نے بھی دمشق حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں جامع سیاسی اصلاحات کے لیے دیگر اہم قوانین بھی متعارف کروائے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک