شام: جنازے کے اجتماع پر فائرنگ، مزید گیارہ مظاہرین ہلاک
22 مئی 2011انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن کے مطابق جمعے کے روز حمص میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دس افراد ہلاک ہوئے تھے، ہلاک شدگان کی آخری رسومات اجتماعی طور پر ادا کی جا رہی تھیں اور ان رسومات میں شریک درجنوں افراد صدر بشار الاسد کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
انسانی حقوق کی ایک اور کارکن رازان زیتون کے مطابق جمعے کے روز ہلاک شدگان کی آخری رسومات نصر کے علاقے میں ادا کی جا رہی تھیں کہ سیکورٹی فورسز نے حکومت کے خلاف نعرے لگانے والے افراد پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی۔
عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر سوگواران نعرے لگا رہے تھے،’بشارالاسد کو اٹھا باہر پھینکو!‘۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں دیگر دس زخمی ہونے والے افراد کو بھی بازوؤں اور ٹانگوں پر گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ انہیں فوری طور پر مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔
شام میں بین الاقوامی میڈیا پرعائد پابندیوں کے باعث ان اطلاعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق فی الحال نہیں ہو پائی ہے اور یہ تمام اطلاعات انسانی حقوق کے کارکنوں اور دیگر افراد کے بیانات پر مبنی ہیں۔
شام کے دیگر شہروں میں بھی جمعے کے روز ہلاک ہونے والے افراد کی آخری رسومات کے موقعے پر ہزاروں افراد نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور بشار الاسد کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
شام کے مختلف علاقوں میں بعد نماز جمعہ ہونے والے مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مجموعی طور پر 44 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کی ایک مقامی تنظیم کے لیے کام کرنے والے ایک رہنما عمار قرابی کے مطابق جمعے کے روز زیادہ تر ہلاکتیں شمال مغربی شہر ادلب میں ہوئیں۔ جمعے کے روز حکومتی فورسز ٹینکوں اور بھاری ہتھیاروں کے ساتھ اس شہر میں داخل ہوئی تھیں۔
شام کے سرکاری نشریاتی اداروں کے مطابق شہریوں، پولیس اور سکیورٹی فورسز کو مسلح افراد نے حملوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔ وزارت داخلہ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے سکیورٹی فورسز کو ’مظاہرین کی جان بچانے کی ذمہ داری‘ سونپی گئی ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عاطف بلوچ