شام سے روسی فوج کا جزوی انخلاء شروع
15 مارچ 2016روسی خبر رساں ادارے انٹرفیکس نے روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہیں صدر ولادی پوٹن کی جانب سے احکامات دیے گئے تھے کہ جنگی اور سامان بردار طیاروں کی ایک مخصوص تعداد کو واپس بلا لیا جائے۔
ماسکو حکومت کا یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب سوئس شہر جنیوا میں شام میں قیام امن کے موضوع پر مذاکرات بھی جاری ہیں، جن میں دمشق حکومت اور اسد مخالف دھڑوں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ خبر رساں اداروں کے مطابق اس روسی اقدام سے صدر بشارالاسد پر اس بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے تناظر میں مزید دباؤ پڑے گا۔ اس بارے میں خود روسی صدر پوٹن کا کہنا تھا،’’ شامی جنگ کے فریقین کے لیے یہ ایک مثبت اشارہ ہے‘‘۔
روس کے حکومتی ترجمان دیمتری پیشکوف کے مطابق ہمیمم فوجی چھاؤنی اور تارتس نامی نیوی کی تنصیب پوری طرح فعال رہیں گی کیونکہ کچھ فوجی اور عسکری ساز و سامان بدستور شام میں رہے گا۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ شام کتنے روسی فوجی تعینات رہیں گے اور نا ہی یہ بتایا کہ روس کا دفاعی میزائل نظام اور جنگی طیارے بھی شام میں ہی موجود رہیں گے یا نہیں۔
روس نے شام میں گزشتہ برس ستمبر میں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، جو تقریباً ساڑھے پانچ مہینے تک جاری رہیں۔ اس دوران روس نے اسد مخالفین اور اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنایا۔ شام میں ستائیس فروری سے فائر بندی معاہدے پر عمل ہو رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے کے اطلاق القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ اور اسلامک اسٹیٹ پر نہیں ہوتا۔
عالمی برادری کی جانب سے روس کے اس غیر متوقع اعلان پر محتاط رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکی حکومت نے بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے ایک ترجمان کے مطابق پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ روس کے عزائم کیا ہیں۔