شام میں امریکی و روسی فوجیوں میں جھڑپیں
19 ستمبر 2020خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے مشرقی حصے میں امریکی اور روسی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کو دیکھتے ہوئے مزید امریکی فوجی اور بکتر بند دستے روانہ کیے گئے ہیں۔ اس مناسبت سے امریکی سنٹرل کمانڈ کے ترجمان نیوی کیپٹن بِل اربن کا کہنا ہے کہ شام میں پہلے سے موجود فوجیوں کی نفری بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک راڈار نظام بھی روانہ کیا گیا ہے۔ اربن نے مزید بتایا کہ امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کے تحفظ کے لیے جنگی طیاروں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے۔
اس ضمن میں سنٹرل کمانڈ کے ترجمان نے واضح کیا کہ اس علاقے میں امریکا کسی ملک کے ساتھ کوئی نیا تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہتا لیکن ضروری ہوا تو اتحادی فوجیوں کی حفاظت کے لیے اقدام کرے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ مشرقی شامی علاقے میں امریکی اور روسی فاجیوں میں متعدد مرتبہ جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ایک امریکی فوجی گاڑی کو حادثہ بھی پیش آیا تھا اور اس میں چار فوجی زخمی ہوئے تھے۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ نصف درجن بریڈلی بکتر بند گاڑیاں روانہ کی گئی ہیں اور لگ بھگ ایک سو فوجی بھی مشرقی شام میں متعین کیے گئے ہیں۔ اسی حکومتی اہلکار کا مزید کہنا ہے کہ اس فوجی پیش رفت کا واضح پیغام روس کے لیے ہے کہ وہ مستقبل میں امریکی اور اتحادی ممالک کے فوجیوں کے خلاف غیر محفوظ اور اشتعال انگیز اقدامات سے حتی الامکان گریز کرے۔
شام میں یورپ اور امریکا پوری طرح ناکام: تجزیہ
ادلب میں مشروط جنگ بندی، امریکا کی طرف سے خیر مقدم
ادلب میں جنگ بندی، روس سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہ کر سکا
رواں برس کے دوران مشرقی شام میں گشت کرنے والے امریکی اور روسی فوجیوں کے درمیان متعدد مرتبہ اشعال انگیزی کے حامل واقعات دیکھے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ شدید جھڑپ گزشتہ ماہ یعنی اگست میں ہوئی تھی جب روسی فوجی گاڑی ایک ہلکی نوعیت کی امریکی بکتر بند گاڑی سے ٹکرائی تھی۔ اس واقعے میں چار امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔
ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے دوران دو روسی ہیلی کاپٹرز بھی فضا میں موجود تھے جبکہ ایک جنگی طیارہ کم بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ روسی وزارتِ دفاع نے فوجی گاڑیوں کے ٹکرانے کی ذمہ داری امریکی فوج پر عائد کی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکی فوج کو قبل از وقت بتایا گیا تھا کہ روس فوجی پولیس کا قافلہ گزرنے والا ہے لہٰذا وہ مناسب انتظام کر لیں مگر ایسا نہیں کیا گیا اور فوجی پولیس کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی گئی۔
دوسری جانب امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی کا کہنا تھا کہ روسی فوجیوں کو اُس علاقے میں نہیں ہونا چاہیے تھا جہاں ان کو اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے کی باقاعدہ اجازت لینا چاہیے تھی اور بلا شبہ روسی فوجیوں کے اقدام کو کسی بھی صورت میں مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حال ہی میں جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ روسی فوجی تنازعاتی علاقے میں عدم تعاون کر رہے ہیں اور اس تناظر میں امریکی فوجیوں کے مکمل تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
مشرقی شام میں گشتی امریکی فوجیوں کے ہمران سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے مسلح اہلکار بھی ہوتے ہیں۔
ع ح / ا ب ا (اے پی، اے ایف پی)