1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے لیے زلزلہ امداد، اتنا وقت کیوں لگا؟

18 فروری 2023

دیگر زلزلہ زدہ علاقوں کے مقابلے میں شمالی شام میں زلزلہ متاثرین تک انسانی امداد پہنچنے میں زیادہ وقت لگا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے ملبہ کھودا اور وہ جنہوں نے اپنے پیاروں کوکھو دیا اس تاخیرکی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4NgzI
Für Artikel: DW Middle East - Assad nutzt Erdbeben politisch aus
تصویر: OMAR HAJ KADOUR/AFP/Getty Images

شمالی شام کے شہر جیندیریس کے رہائشی رمضان ہلال اور اس کا خاندان گھبراہٹ کے عالم میں اپنے گھر سے نکل گیا تھا۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہر کوئی ننگے پاؤں تھا۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے، زخمی ہوئے اور گھر سے کچھ بھی نہیں اٹھا سکے۔‘‘

اب زلزلے کے تقریباً دو ہفتے بعد بھی ہلال کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ جیندیریس اس علاقے کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے قصبوں میں سے ایک ہے اور ہلال، جو شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے سات سال قبل اپنا آبائی شہر حلب چھوڑ آیا تھا، اب اپنے خاندان کے ساتھ اپنے گھر کے باقیات کے قریب ایک خود سے بنائے ہوئے ایک خیمے میں رہ رہا ہے۔

وہ تباہ شدہ گھر کے اندر سے قابل استعمال اشیاء نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، ''یہاں تک کہ اس خیمے میں جس میں ہم رہ رہے ہیں، مجھے لوہے کا فریم ادھار لینا پڑا اور  اسے ڈھانپنے کے لیے چادر خود خریدنا پڑی۔  ہمیں ابھی تک کوئی امداد نہیں ملی ہے۔‘‘

ہلال جیسے مقامی لوگ، جو سخت سردیوں اور منفی درجہ حرارت میں اپنی زندگیوں کی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ امداد بہت دیر سے اور بہت ہی کم مقدار میں پہنچی ہے۔ پچھلے دنوں میں، بچ جانے والوں کو ملبے تلےسے نکالنے کے بارے میں بہت سی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ یہ ریسکیو ورکرز اپنے ہاتھوں سے ملبہ صاف کر رہے ہیں، صرف اس امید میں کہ ملبے کے نیچے دبے افراد کی زندگی کی آخری کرن تک پہنچ کر انہیں نکال سکیں تاہم ملبے کے نیچے دبی آوازیں اب بالآخر خاموش ہوتی جا رہی ہیں۔

زلزلہ متاثرین کے لیے جرمن حکومت کی فاسٹ ٹریک ویزا پیشکش

Syrien | Treffen Bashar Assad mit Martin Griffiths in Damaskus
دمشق میں بشار الاسد کی اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین آفیئرز کے انڈر سکریٹری مارٹن گریفتھس کے ساتھ ملاقاتتصویر: Syrian Presidency/Facebook/AP Photo/picture alliance

 

تاخیر کی وجہ

مذکورہ علاقے میں چار  ملین سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، زیادہ تر شامی شہری ملک کی طویل خانہ جنگی کے دوران ملک کے دوسرے حصوں سے بے گھر ہوئے تھے۔ اس علاقے پر شامی حکومت کی مخالفت کرنے والے مختلف گروہوں کا کنٹرول ہے۔

برسوں کی لڑائی، بُری گورننس اور انفراسٹرکچر پر شام اور اس کے اتحادی روس کے براہ راست حملوں کا مطلب یہ ہے کہ طبی سہولیات اور دیگر ہنگامی خدمات پہلے ہی دباؤ میں تھیں یا نہ ہونے کے برابر تھیں۔ شام کے اس حصے میں رہنے والے شہریوں کی اکثریت اس تازہ ترین آفت سے پہلے ہی زندہ رہنے کے لیے بین الاقوامی انسانی امداد پر انحصار کر رہی تھی۔

اور اپوزیشن کے زیر کنٹرول اس علاقے میں امداد اور رسد کا حصول طویل عرصے سے سیاست کی نذر رہا ہے۔

حلب میں محصور ڈھائی لاکھ شامیوں کے لیے خوراک ختم ہو گئی

آمر حکمران بشار الاسد کا اصرار ہے کہ تمام انسانی امداد دمشق کے ذریعے پہنچائی جائے۔ مبینہ طور پر شامی صدر اسد نے بین الاقوامی امداد کا استعمال  اپنے آپ کو اور اپنے حامیوں کو مالا مال کرنے کے لیے کیا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مخالفین کے زیر قبضہ علاقوں میں اس کے دشمنوں کو رسد کی کمی کا سامنا کرنا پڑے۔

یہی وجہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے آغاز پر ہی اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اصرار کیا تھا کہ امداد ترکی کی سرحد کے ذریعے، براہ راست حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقوں میں، اور اسد حکومت سے اجازت لیے بغیر پہنچائی جائے۔ اس طرح پچھلے سالوں میں زیادہ تر امداد اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقوں میں پہنچی۔

2014 ء کے وسط میں سلامتی کونسل کے ارکان نے فیصلہ کیا کہ اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کی ایجنسیوں اور ان کے شراکت داروں کو چار مختلف سرحدی کراسنگ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔ دو ترکی کے راستے اور ایک ایک اردن اور عراق کے ذریعے۔

Srien Aleppo | Erdbeben
شامی تاریخی شہر حلب کھنڈرات بن چکا ہےتصویر: LOUAI BESHARA/AFP

اصل قصوار کون ؟

جب فروری کے اوائل میں دو تباہ کن زلزلے آئے، اُس کے بعد 13 فروری تک، اسد حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ترکی کی مزید دو سرحدی گزرگاہیں تین ماہ کے لیے کھولی جا سکتی ہیں۔  اسد کے حامیوں کا موقف ہے کہ بین الاقوامی پابندیاں اس تاخیر کی ذمہ دار ہیں جبکہ اسد کے ناقدین کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے جان بوجھ کر مذموم، سیاسی وجوہات کی بنا پر اتنا طویل انتظار کروایا ہے۔

اٹلی میں قائم یورپی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ میں شامی امور  کے ایک ماہر جوزف داہر نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ سرحدوں کو کھولنا ''حکومت کے لیے اس سانحے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے آلہ کار بنانے کا ایک طریقہ ہے۔‘‘

ریفیوجیز انٹرنیشنل میں مشرق وسطیٰ کے لیے سینیئر وکیل کی حیثیت سے کام کرنے والے جسے مارکس نے ایک بیان میں کہا، ''ہم نے بارہا یہ دیکھا ہے کہ شامی حکومت ہنگامی بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت اور اپنے کنٹرول کو بڑھانے کے لیے ایسی صورتحال سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔‘‘

Türkei UN-Hilfsgüter für Syrien | Lastwagen Hilfskonvoi
شام میں تحریر الشام جیسے گروہوں نے امدادی ٹرکوں کا رخ موڑ دیاتصویر: OMAR HAJ KADOUR/AFP

اقوام متحدہ ذمہ دار

دریں اثنا چند دیگر عناصر نے کہا ہے کہ اقوام متحدہقصور وار تھا۔  ترکی کی حکومت نے بظاہر آٹھ فروری کو دو مزید سرحدی گزرگاہیں کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن اقوام متحدہ نے شامی حکومت کے رضامندی کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ شام کے رضاکار ریسکیو گروپ وائٹ ہیلمٹس کے سربراہ رائد صالح نے اس ہفتے سی این این کے لیے  لکھا، ''جب میں نے اقوام متحدہ سے پوچھا کہ مدد بروقت پہنچنے میں کیوں ناکام رہی تو مجھے جو جواب ملا، وہ تھا بیوروکریسی کی وجہ سے۔‘‘  رائد صالح نے مزید کہا، ''برسوں میں دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والی مہلک تباہیوں میں سے ایک کے سامنے، ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہاتھ سرخ فیتے سے بندھے ہوئے تھے۔‘‘

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق شام میں تحریر الشام جیسے گروہوں نے امدادی ٹرکوں کا رخ موڑ دیا کیونکہ وہ ایسی حکومت کی طرف سے کچھ بھی قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جس نے برسوں سے ان پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور انہیں بھوک کا شکار رکھ کر اُن پرگولی چلائی ہو۔ شمالی شام کے دیگر حصوں میں بھی ترک حمایت یافتہ ملیشیا کے جنگجوؤں نے ایسا ہی کیا۔

کیتھرین شیئر (ک م/ ا ب ا)