شام میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 34 افراد ہلاک
4 جون 2011اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شام میں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن پر تشویش ظاہر کی ہے جبکہ ایک امریکی ادارے کے مطابق شام کے متعدد شہروں میں مظاہرین کی حمایت کرنے والی انٹرنیٹ ویب سائٹس کی بندش کی جا رہی ہے۔
لندن میں قائم، شام میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نگاہ رکھنے والی انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے وابستہ رَمی عبدالرحمان کے مطابق متعدد زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے، لہٰذا ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
عبدالرحمان نے کہا کہ حما سے ٹیلی فون کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق وہاں پولیس نے مظاہرین پر اندھادھند فائرنگ کی۔ عبدالرحمان کے مطابق رواں برس مارچ سے ملک میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے، آزادی اور جمہوریت کے لیے جاری ان مظاہروں میں مسلسل شدت آ رہی ہے اور حما شہر میں جمعہ کے روز ہونے والا یہ مظاہرہ اس شہر میں اب تک کا سب سے بڑا احتجاجی اجتماع تھا، جس میں 50 ہزار سے زائد افراد شریک ہوئے۔ عبدالرحمان کے مطابق شام کے دیگر علاقوں میں بھی جمعہ کے روز صدربشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے نعروں کے ساتھ بہت سی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے نے حما شہر میں موجود دیگر افراد کے حوالے سے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں غیرملکی میڈیا پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ ملکی میڈیا پر لگائی گئی قدغن کے باعث وہاں سے معلومات کے حصول میں شدید مسائل کا سامنا ہے اور جمعہ کے روز ہونے والے اس واقعے میں ہلاک شدگان کی تعداد کی بھی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔
بدھ کے روز صدربشار الاسد نے ملکی جیلوں میں قید تمام سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا، تاہم اس اعلان کے باوجود جمعہ کے روز ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے اور بشار الاسد سے مستعفی ہونے کے مطالبات دہرائے۔
عبدالرحمان کے مطابق حکومتی اعلانات کے باوجود مظاہروں کی شدت میں کمی کے کوئی اثرات نہیں دیکھے گئے ہیں، جس سے یہ بات ظاہر ہے کہ عوام بشارالاسد پر مزید بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : افسر اعوان