شام پر حملے سے قبل اوباما کا کانگریس سے رجوع
1 ستمبر 2013اگرچہ بحیرہء روم کے علاقے میں امریکی بحری بیڑہ شام پر ممکنہ میزائل حملوں کے لیے تیار ہے تاہم ملکی سطح پر اور اتحادیوں کی طرف سے ایسے حملوں کے حوالے سے حمایت ناکافی ہونے کی وجہ سے ہی شاید صدر اوباما نے کانگریس سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق باراک اوباما نے کانگریس کو منظوری کے لیے ایک ایسا مسودہء قانون روانہ کر دیا ہے، جس میں شامی حکومت کے خلاف عسکری کارروائی کی اجازت طلب کی گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ امریکا کو شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بطور کمانڈر ان چیف انہیں اس طرح کی عسکری کارروائی کے لیے کانگریس سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی کانگریس کا آئندہ اجلاس 9 ستمبر کو ہو گا، جس میں اس حوالے سے مفصل بحث کی جائے گی۔
امریکا کے بقول شامی صدر بشار الاسد نے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف بین لااقوامی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں اور اس لیے دمشق حکومت کو سزا ملنا چاہیے۔ ہفتے کے دن اوباما کی یہ گفتگو امریکا کے علاوہ شامی ٹیلی وژن چینلز پر بھی ترجمے کے ساتھ نشر کی گئی۔ اوباما نے کہا کہ شام کے خلاف کی جانے والی کارروائی محدود مگر سخت ہو گی تاکہ وہ آئندہ کبھی بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا نہ سوچے۔
امریکی صدر نے اراکین کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ ایسے آمر کو کیا پیغام دیا جانا چاہیے، جس نے زہریلی گیس کا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا اور اسے اس حوالے سے کوئی قیمت بھی نہ چکانا پڑے؟
ادھر ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر جان بوہنر اور دیگر اپوزیشن سیاستدانوں کی طرف سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہمیں خوشی ہے کہ شام پر حملہ کرنے سے قبل صدر اوباما نے کانگریس سے منظوری مانگی ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 9 سمتبر کو کانگریس میں اس حوالے سے بات چیت کی جائے گی اور تب تک صدر کو وقت بھی مل جائے گا کہ وہ امریکی عوام اور کانگریس کے سامنے اپنا کیس مضبوط طریقے سے پیش کر سکیں۔
دوسری طرف نیو یارک سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن رکن کانگریس پیٹر کنگ نے امریکی صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بطور کمانڈر ان چیف انہیں اس طرح کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، ’’ بطور کمانڈر ان چیف صدر اوباما اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکا کے آئندہ صدور کی اتھارٹی کو بھی کم کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صدر اوباما کو اپنی ہی طرف سے دی گئی ریڈ لائن پر عمل کرنے کے لیے ایوان کے 535 اراکین سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدر شام پر حملے کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن روس نے شام پر کسی بھی ممکنہ حملے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت ایسے شواہد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرے کہ صدر اسد کی حامی افواج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ شامی حکومت کے بقول اکیس اگست کو دمشق کے نواحی علاقے غوطہ میں کیے گئے حملے میں اس کی فورسز نے کوئی کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے تھے۔ دمشق کا الزام ہے کہ زہریلی گیس کا استعمال باغیوں نے کیا ہے۔