شام پر ممکنہ امریکی حملہ اور ایران کا ‘پلان بی‘
29 اگست 2013شام میں گزشتہ ہفتے ظالمانہ کیمیائی حملے میں بڑی تعداد میں شہری ہلاکتوں کے بعد یوں لگتا ہے جیسے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں کہ وہ شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کریں۔ اب سے ایک برس قبل امریکی صدر باراک اوباما نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو امریکا کے لیے ’ریڈ لائن‘ یا سرخ لکیر قرار دیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ ایسے کسی حملے کی صورت میں بشارالاسد حکومت کو ’نتائج‘ بھگتنا ہوں گے مگر اب تقریبا واضح ہے کہ یہ ’سرخ لکیر‘ عبور ہو چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر شام پر امریکی کارروئی محدود ہو گی اور شاید یہ دمشق میں حکومتی عمارت پر ایک کروز میزائل داغنے کی شکل میں ’علامتی حملہ‘ ہو، تاہم اس کے خطے پر انتہائی سنجیدہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
برطانوی تھنک ٹینک آکسفورڈ ریسرچ گروپ سے وابستہ دفاعی امور کے ماہر پاؤل راجرز کے مطابق، ’اگر آپ ایک بار اس طرح کی کوئی کارروائی کرتے ہیں، تو پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کے کیا ہو گا۔ اگر یہ حملے صرف علامتی بھی ہوا، تو مشرق وسطیٰ کے پیمانے پر، اسے مغرب کی ایک اور جارحیت اور مداخلت سمجھا جائے گا۔‘
برطانیہ کے اکیڈمک شیعہ اسٹڈیر سینٹر کے محقق حیدر الخوئی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’میرے خیال میں ایسے کسی حملے سے مشرق وسطیٰ میں اس سوچ کو فروغ ملے گا کہ مغربی طاقتیں خونرز فرقہ واریت میں جانبدار ہیں اور اس سے شام اور اس سے باہر جاری فرقہ واریت کو اور فروغ ملے گا۔‘
مشرق وسطیٰ میں ایران کا ردعمل ایسے کسی حملے کے نتیجے میں دیگر ممالک سے خاصا مختلف ہو سکتا ہے۔ ایران شام کا قریبی اتحادی ہے اور دونوں ممالک کی امریکا کے حوالے سے تقریباﹰ ایک سی سوچ ہے۔ ایران میں حالیہ صدارتی انتخابات میں حیرت انگیز طور پر ’اعتدال پسند‘ رہنما حسن روحانی کامیاب ہو گئے اور انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے سنجیدہ بات چیت چاہتے ہیں۔
راجر کے مطابق، ’ایران کے اتحادی پر امریکی حملہ ہوا، تو تہران میں یہ مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے کہ اب امریکا کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہ کی جائے اور ہر حال میں جوہری ہتھیار تیار کیے جائیں۔‘
ڈی ڈبلو سے بات چیت کرتے ہوئے یونیورسٹی آف لندن کے بین الاقوامی تعلقات کے شعبے سے وابستہ عرشین ادیب مغدم نے کہا، ’اس حملے سے ایران کی داخلی سیاست پر شاید بہت زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں، تاہم اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہو جاتا کہ شام پر حملہ کوئی اچھا خیال ہے۔‘
الخوئی نے اس صورتحال کو بیان کرتے ہوئے کہا، ’اگر شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہوا، تو ایرانی شام کی جانب پیدل مارچ کریں گے۔‘
تاہم جرمن انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی سلامتی امور کے ایرانی شعبے کے ماہر والٹر پوش اس بات سے متفق نہیں کہ شام کے خلاف کسی امریکی کارروئی کے ڈرامائی نتائج نکل سکتے ہیں۔ ’یوں لگتا ہے کہ ایرانیوں کو بتایا جا چکا ہے یا ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ بات چیت عمان کے شاہ کے ذریعے ہوئی ہے۔ دو روز قبل عمان کے سلطان ایران میں تھے، جہاں انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر (آیت اللہ علی خامنہ ای) سے خطے کی سلامتی سے متعلق طویل گفتگو کی۔