شام کے حالات، اقوام متحدہ پر مداخلت کے لیے دباؤ
27 اپریل 2011اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک فرانس، اٹلی، جرمنی اور برطانیہ نے منگل کو شام میں مظاہرین کے خلاف پُر تشدد کارروائیوں پر دُکھ کا اظہار کیا۔ انسانی حقوق کے گروپ شام کے حالات کے پیشِ نظر اقوام متحدہ کی مداخلت پر زور دے رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ شام کا معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں بھیجا جائے۔
اُدھر شام میں گزشتہ ماہ کے وسط سے جاری تشدد کے واقعات تاحال جاری ہیں، جن میں حالیہ چند دِنوں کے دوران تیزی آئی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اب تک وہاں چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ منگل کو مزید ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال شام میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر وہ اپنا ردِ عمل سفارتی کوششوں اور ممکنہ پابندیوں تک محدود رکھیں گے۔ شام پر امریکی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسٹریٹیجک پالیسی کے ڈائریکٹر جیکب سولویان نے کہا، ’فی الحال ہم شام میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے پر زیادہ غور نہیں کر رہے‘۔
خیال رہے کہ واشنگٹن حکومت نے قبل ازیں شام میں اپنے سفارت خانے سے غیر ضروری عملے کی واپسی کا اعلان کیا تھا۔
برطانوی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ شام میں کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت کے راستے میں ’عملی رکاوٹیں‘ ہیں، حالانکہ نیٹو لیبیا میں ایسے ہی حالات کی وجہ سے کارروائی کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ انتہائی تشویش سے شام کے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بات پندرہ رکنی سلامتی کونسل کو عرب دنیا کے حالات پر بریفنگ دینے کے بعد کہی۔ انہوں نے کہا، ’میں پُر امن مظاہرین کے خلاف تسلسل سے جاری طاقت کے استعمال کی مذمت کرتا ہوں، بالخصوص ان کے خلاف ٹینک استعمال کیے جانے اور انہیں فائرنگ کا نشانہ بنائے جانے کی، جن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں‘۔
برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں شام کے خلاف سخت کارروائی پر زور دے چکی ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ میں چین کے سفیر لی باؤ دونگ نے کہا کہ وہ شام کے تنازعے کے سیاسی حل پر زور دیں گے۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی