شامی اپوزیشن کی خفیہ امریکی پشت پناہی : وکی لیکس
18 اپریل 2011واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے وکی لیکس کے اس تازہ ترین انکشاف میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ 2006 ء سے شام کے جلا وطنوں کے ایک گروپ کی پشت پناہی کر رہا ہے، جو لندن میں قائم ایک سیٹیلائٹ ٹی وی چینل ’ بردۃ‘ چلا رہا ہے۔ اس چینل کی مالی معاونت سمیت شام کے اندر حکومت مخالف باغیوں کی سرگرمیوں کے لیے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اب تک چھ ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
’بردۃ‘ ٹی وی چینل نے اپریل 2009 ء میں نشریات کا آغاز کیا تھا۔ تاہم اس نے گزشتہ ماہ شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کی بڑی پیمانے پر کوریج کا سلسلہ جاری رکھا اور شامی صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے شام میں جاری سیاسی مہم کی ٹیلی وژن نشریات کے ذریعے بھرپور تشہیر کی۔
واشنگٹن پوسٹ نے مزید لکھا ہے کہ شام کی اپوزیشن کی مدد کے لیے امریکی پیسے کے بہاؤ کا سلسلہ دراصل سابق امریکی صدر جاج ڈبلیو بُش کے دور میں اُس وقت شروع ہوا تھا، جب 2005 ء میں دمشق حکومت کے ساتھ امریکہ کے سیاسی تعلقات جمود کا شکار ہوگئے تھے۔
امریکی اخبار نے مزید تحریر کیا ہے کہ شام کے اپوزشن گروپوں کی مالی معاونت اور پشت پناہی کا سلسلہ موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں بھی جاری رہا جبکہ دوسری جانب اوباما انتظامیہ نے بشار الاسد کے ساتھ امریکہ کے سیاسی تعلقات دوبارہ سے اُستوار کرنے کی کوششیں بھی شروع کیں۔ اس سال جنوری میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے دمشق میں امریکی سفیر کی تقرری کا اعلان بھی کیا گیا۔ امریکہ کی طرف سے یہ اقدام گزشتہ چھ سالوں میں پہلی بار کیا گیا۔
آیا امریکہ شام کے اپوزیشن گروپوں کی پُشت پناہی ہنوز جاری رکھے ہوئے ہے، واشنگٹن پوسٹ نے تاہم لکھا ہے کہ اس بارے میں یقین سے کُچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم وکی لیکس کیبلز اس طرف اشارے کر رہے ہیں کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے شام کے اپوزیشن گروپوں کی مالی معاونت کے لیے کم از کم گزشتہ ستمبر تک رقم مختص کی گئی تھی۔
شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت خاصی سنجیدہ شکل اختیار کر چُکی ہے۔ گزشتہ ماہ ہونے والے حکومت مخالف پُر تشدد مظاہروں کی آگ پوری ملک میں پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کے اندازوں کے مطابق مظاہروں کے دوران کم از کم 200 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ شامی حکام اس کا ذمہ دار مسلح باغیوں کو قرار دے رہے ہیں۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ماضی میں منظر عام پر نہ آنے والے کیبلز سے پتہ چلا ہے کہ دمشق میں امریکی سفارتخانے کے اہلکار 2009 ء میں اُس وقت فکر مند ہو گئے تھے، جب شامی خفیہ ادارے کی طرف سے امریکی سرگرمیوں کی نوعیت کے بارے میں سوالات اُٹھائے جانے لگے۔ اخبار کے مطابق کیبلز انکشافات سے پتہ چلا ہے کہ 2009 ء اپریل میں امریکہ کے اعلیٰ سفارتی عہدیداروں نے ایک دستاویز پر دستخط کیے تھے، جن میں درج تھا کہ ’ شامی حکام کو اس بارے میں امریکہ پر کوئی شک نہیں گزرے گا کہ وہ غیر قانونی سیاسی گروپوں کی پشت پناہی کے ذریعے شام میں اقتدار کی تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے‘۔
کیبلز انکشافات میں کہا گیا ہے کہ شام کے اندر اور بیرون ملک حکومت مخالف عناصرکی امریکی پشت پناہی میں جاری سرگرمیاں ممکنہ طور پر بار آور ثابت ہو سکتی ہیں۔
دریں اثناء واشنگٹن پوسٹ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے لندن میں قائم ’ بردۃ‘ ٹیلی وژن چینل کی مالی معاونت اور شام میں حکومت مخالف گروپوں کی پشت پناہی سے متعلق وکی لیکس کے نئے انکشافات پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی