1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی تنازعہ اور نیٹو کا کردار، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

بیرنڈ ریگرٹ / امتیاز احمد4 ستمبر 2013

نیٹو اتحاد کے سربراہ راسموسن نے شام میں فوجی کارروائی پر زور دیا ہے لیکن ان کے اپنے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ یہ طاقتور تنظیم ایک تماشائی کا کردار ادا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتی۔

https://p.dw.com/p/19bzk
تصویر: picture-alliance/dpa

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن شام پر حملہ کرتے ہوئے دمشق حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ لیکن خواہش کے باوجود وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے اتحادی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ’انتظار کرو‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ راسموسن کو یقین ہے کہ دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اسد حکومت کی فورسز نے کیا لیکن اس اٹھائیس رکنی اتحاد کے کئی رکن ملک واضح ثبوت سامنے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

راسموسن کے مطابق دیگر آمروں کو زہریلی گیس کے استعمال سے روکنے کے لیے شام میں فوجی مداخلت ضروری ہے۔ ظاہری طور پر یہ مطالبہ امریکا اور نیٹو میں اس کے اتحادی ممالک سے کیا جا رہا ہے کیونکہ یہی طاقتیں شام میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کی طاقت رکھتی ہیں۔

NATO Generalsekretär Anders Fogh Rasmussen Pressekonferenz zu Syrien in Brüssel
راسموسن کے مطابق دیگر آمروں کو زہریلی گیس کے استعمال سے روکنے کے لیے شام میں فوجی مداخلت ضروری ہےتصویر: Reuters

اس سارے معاملے میں یہ تنظیم غیر فعال رہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتی کیونکہ کسی بھی کارروائی کے لیے اس کے تمام رکن ملکوں کا متفق ہونا ضرری ہے اور ابھی تک یہ ممالک ایسے کسی اتفاق رائے سے کوسوں دور ہیں۔

ماضی میں ڈنمارک کے وزیر اعظم کے طور پر عراق کی جنگ میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا ساتھ دینے والے راسموسن کے لیے یہ صورتحال مایوس کن ہے۔ ان کو دو سال پہلے لیبیا میں نیٹو کے مشن کی طرح آج اقوام متحدہ کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔

ماضی کی جنگوں کی وجہ سے اس مرتبہ سبھی ممالک محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور جرمنی مختلف وجوہات کی بنا پر شام کے خلاف فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ صرف فرانس وہ واحد یورپی ریاست اور نیٹو کا رکن ملک ہے، جو امریکا کا ساتھ دے سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر راسموسن بین الاقوامی برادری سے فوجی مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں تو خود نیٹو بھی ایک تماشائی کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ حقیقت میں یہ کردار ’نئے نیٹو‘ کے اس کردار کے منافی ہے، جو یہ اتحاد سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ادا کرنا چاہتا تھا۔

افغانستان کی طویل جنگ کے بعد نیٹو کے رکن ملک کسی بھی نئی مہم جوئی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ شام میں فوجی مداخلت کے بعد کون کون سے خطرات سر اٹھا سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ راسموسن کی اپیل پر کم ہی کان دھرے جائیں گے۔

شام کے تنازعے میں نیٹو تنظیم جو واحد کردار ادا کر سکتی ہے، وہ رکن ملک ترکی کی حفاظت سے متعلق ہے۔ شام کی طرف سے ترکی پر کسی حملے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس معاملے میں ’تاش کے پتے نئے سرے سے پھینٹ دیے گئے ہیں‘۔ پھر آرٹیکل پانچ کے تحت نیٹو اتحاد صرف تماشائی نہیں بنا رہے گا اور اپنے اتحادی ترکی کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔