شامی تنازعہ اور نیٹو کا کردار، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
4 ستمبر 2013مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن شام پر حملہ کرتے ہوئے دمشق حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ لیکن خواہش کے باوجود وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے اتحادی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ’انتظار کرو‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ راسموسن کو یقین ہے کہ دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اسد حکومت کی فورسز نے کیا لیکن اس اٹھائیس رکنی اتحاد کے کئی رکن ملک واضح ثبوت سامنے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
راسموسن کے مطابق دیگر آمروں کو زہریلی گیس کے استعمال سے روکنے کے لیے شام میں فوجی مداخلت ضروری ہے۔ ظاہری طور پر یہ مطالبہ امریکا اور نیٹو میں اس کے اتحادی ممالک سے کیا جا رہا ہے کیونکہ یہی طاقتیں شام میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کی طاقت رکھتی ہیں۔
اس سارے معاملے میں یہ تنظیم غیر فعال رہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتی کیونکہ کسی بھی کارروائی کے لیے اس کے تمام رکن ملکوں کا متفق ہونا ضرری ہے اور ابھی تک یہ ممالک ایسے کسی اتفاق رائے سے کوسوں دور ہیں۔
ماضی میں ڈنمارک کے وزیر اعظم کے طور پر عراق کی جنگ میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا ساتھ دینے والے راسموسن کے لیے یہ صورتحال مایوس کن ہے۔ ان کو دو سال پہلے لیبیا میں نیٹو کے مشن کی طرح آج اقوام متحدہ کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔
ماضی کی جنگوں کی وجہ سے اس مرتبہ سبھی ممالک محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور جرمنی مختلف وجوہات کی بنا پر شام کے خلاف فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ صرف فرانس وہ واحد یورپی ریاست اور نیٹو کا رکن ملک ہے، جو امریکا کا ساتھ دے سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر راسموسن بین الاقوامی برادری سے فوجی مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں تو خود نیٹو بھی ایک تماشائی کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ حقیقت میں یہ کردار ’نئے نیٹو‘ کے اس کردار کے منافی ہے، جو یہ اتحاد سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ادا کرنا چاہتا تھا۔
افغانستان کی طویل جنگ کے بعد نیٹو کے رکن ملک کسی بھی نئی مہم جوئی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ شام میں فوجی مداخلت کے بعد کون کون سے خطرات سر اٹھا سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ راسموسن کی اپیل پر کم ہی کان دھرے جائیں گے۔
شام کے تنازعے میں نیٹو تنظیم جو واحد کردار ادا کر سکتی ہے، وہ رکن ملک ترکی کی حفاظت سے متعلق ہے۔ شام کی طرف سے ترکی پر کسی حملے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس معاملے میں ’تاش کے پتے نئے سرے سے پھینٹ دیے گئے ہیں‘۔ پھر آرٹیکل پانچ کے تحت نیٹو اتحاد صرف تماشائی نہیں بنا رہے گا اور اپنے اتحادی ترکی کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔