1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی جنگ سے بچ گئے اب سردی سے لڑائی جاری ہے

عاطف توقیر
26 دسمبر 2017

خدیجہ العوش کا تعلق رقہ سے ہے اور وہ شامی خانہ جنگی کا بدترین وقت دیکھ چکی ہیں، مگر بے گھروں کے ایک کمیپ میں مقیم پانچ بچوں کی والدہ العوش شدید سردی کی وجہ سے اپنا ایک سات سال بچہ کھو چکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2pwV1
Syrien Ras al-Ain Flüchtlinge aus Mosul, Irak
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

خانہ جنگی کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہزاروں شامی باشندے مختلف مہاجر کیمپوں میں پلاسٹک کے خیموں یا تباہ حال عمارتوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب ان افراد کو شدید سردی کا سامنا ہے۔

سربیا میں پھنسے مہاجر اور شدید جاڑے کے دن

پرانے کمبل سردیوں کے لباس میں تبدیل

سربیا: مہاجرین  پر جوؤں اور سردی کے امراض کا حملہ

ان مہاجروں کو نہ تو گرم کپڑے دستیاب ہیں اور نہ ہی ہیٹنگ کا کوئی انتظام ہے، حتیٰ کہ ان کے پاس علاج معالجے تک کی سہولت میسر نہیں اور اس صورت حال میں سردی بھی ان کی اموات کا سبب بن رہی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 35 سالہ خدیجہ العوش نے بتایا، ’’میرا بچہ سردی کی وجہ سے مر گیا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ وہ داعش کے مضبوط گڑھ الرقہ میں لڑائی شروع ہونے کے بعد اپنے بچوں کے ہم راہ علاقے سے نکلیں تھیں اور عین العیسیٰ نامی مہاجر کیمپ تک پہنچی تھیں۔ یہ مہاجر بستی الرقہ سے 50 کلومیٹر دور ہے۔

انہوں نے بتایا کہ رات کے اوقات میں یہاں درجہ حرارت چار ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور ان کے پاس نہ گرم لباس ہے اور نہ ہیٹنگ کا کوئی انتظام۔

العوش کے مطابق، ’’وہ کھانستا رہا اور نصف شب کے وقت اسے شدید بخار ہو گیا۔ اگلے روز وہ فوت ہو گیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے العوش نے اپنے باقی چار بچے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیے۔ ’’خدا ہمیں اس سردی سے محفوظ رکھے۔‘‘

شدید سردی، مشرقی یورپ میں مہاجرین کا کیا ہو گا؟

یہ بات اہم ہے کہ قریب 17 ہزار افراد اس وقت عین العیسیٰ کی مہاجر بستی میں مقیم ہیں اور اس مقام پر مجموعی طور پر ڈھائی ہزار ٹینٹ نصب ہیں۔ یہاں موجود افراد میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو الرقہ سے فرار ہو کر یہاں پہنچے تھے۔ دیرالزور صوبے کا علاقہ الرقہ کئی برس تک شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا مضبوط ترین مرکز رہا تھا جب کہ یہ خودساختہ خلافت اسے اپنا دارالخلافہ بھی قرار دیتی تھی۔