شامی سکیورٹی فورسز کا کریک ڈاؤن 19 افراد ہلاک
18 جون 2011صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے عوام کے خلاف اس ’ریاستی تشدد‘ کے استعمال پر بین الاقوامی برادری میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ فرانس نے شام پر سخت پابندیاں لگانے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لوروف کے ساتھ شام کے خلاف اقوام متحدہ کے کردار پر بات کی ہے۔
شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز نماز جمعہ کے بعد شمالی علاقوں میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔ اسی دوران فوج کے کریک ڈاؤن میں، ایک امریکی عہدیدار کے بقول 19 افراد مارے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن حکومت اس امکان کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا شامی حکومت کو تشدد سے روکنے کے لیے اس کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات عائد کیے جاسکتے ہیں؟ تیل و گیس کی شامی کمپنیوں کو بین الاقوامی سطح پر اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنایا بنایا جاسکتا ہے اور دمشق کو شدید سفارتی دباؤ میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔
شام کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کسی ممکنہ کردار کے حوالے سے چین اور روس کی حمایت ناگزیر ہے۔ دونوں نے رواں ہفتے اس ضمن میں ایک مجوزہ قرار داد پر بحث کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس قرارداد کے ذریعے مظاہرین پر شامی حکومت کے کریک ڈاؤن کی مذمت تجویز کی گئی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جمعہ کو اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لوروف کو ٹیلی فون کرکے خیالات کا تبادلہ کیا۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی کمیٹی بھی پیر کو شام کے معاملے پر ایک خصوصی اجلاس میں غور کرے گی۔
شام میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم Syrian Observatory of Human Rights کے سربراہ رامی عبد الرحمان کا کہنا ہے کہ جمعہ کو نو افراد شمالی شہر حمص سکیورٹی فورسز کا نشانہ بنے، دو افراد مشرقی شہر دیر الزور میں، تین افراد دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں حرستا اور دوما میں اور دو افراد جنوبی شہر درعا میں ہلاک ہوئے۔
ان کے بقول حمص شہر میں پانچ ہزار افراد نے حکومت مخالف مظاہرے میں حصہ لیا تھا۔ دوسری طرف شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی SANA کی رپورٹ کے مطابق حمص شہر میں ’مسلح دہشت گردوں‘ کے ہاتھوں ایک سکیورٹی اہلکار مارا گیا اور 30 زخمی ہوئے ہیں۔ شام میں بد امنی کے سبب شمالی علاقوں سے لگ بھگ دس ہزار افراد نقل مکانی کرکے ترکی میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عابد حسین