شامی مہاجرين کے ليے ايک اور در بند
27 جون 2016يہ دسمبر سن 2012 کی بات ہے کہ جب شامی خانہ جنگی کی شدت ميں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ حلب کا رہائشی انيس سالہ طالب علم عادل بکور کيميا کی ڈگری کے ليے باقاعدہ تعليم شروع کرنے ہی والا تھا کہ زبردستی فوج ميں بھرتی کے خطرے کے سبب اس نے ملک چھوڑنے کا فيصلہ کر ليا۔ عادل سرحد پار کر کے ترکی پہنچا اور وہاں سے استنبول۔ پھر تين دن بعد وہ جنوبی امريکی ملک برازيل کے شہر ريو ڈی جينيرو کے ليے روانہ ہو گيا۔ تقريباً چار برس بعد عادل بکور نے دوبارہ اپنی تعليم وہيں سے شروع کی جہاں وہ رُک گئی تھی۔ اس نے شہر کی ايک معتبر وفاقی يونيورسٹی ميں کيمسٹری يا کيميا کی پڑھائی اور ساتھ ساتھ عربی زبان سکھانے کا کام شروع کر ديا۔
شامی مہاجرين کے حوالے سے برازيل کی نئی حکومت کی پاليسی کے سبب ايسا معلوم ہوتا ہے کہ عادل کے جيسی کہانياں اب شاز و نادر ہی سننے کو ملا کريں گی۔ مارچ سن 2011 ميں شامی خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک 2,200 شامی مہاجرين برازيل ميں سياسی پناہ لے چکے ہيں۔ اگرچہ يہ تعداد بظاہر کافی کم دکھائی ديتی ہے ليکن علاقائی سطح پر يہ کافی زيادہ ہے اور يہ امر بھی اہم ہے کہ ابتداء ميں آنے والے ان لگ بھگ ڈھائی ہزار شامی مہاجرين کا شمار اُس وقت کے لحاظ سے بڑے گروپوں ميں ہوا کرتا تھا۔
انٹرنيشنل ريليشنز کے برازيل کے ايک معتبر اسسٹنٹ پروفيسر اوليور اسٹوئنکل نے امريکی اخبار ’دا نيو يارک ٹائمز‘ ميں گزشتہ برس ستمبر ميں چھپنے والے اپنے ايک آرٹيکل ميں ملکی حکومت پر زور ديا تھا کہ وہ برازيل کو درپيش تربيت يافتہ اور ہنر مند افراد کی کمی پوری کرنے اور اقتصادی ترقی کے ليے پچاس ہزار مہاجرين کو پناہ فراہم کرے۔ اگرچہ ملکی سطح پر چند ايک مبصرين نے ان کی مانگ کا موازنہ ’دہشت گردی درآمد‘ کرنے سے کيا تاہم سياسی حلقوں ميں ان کی بات سن لی گئی۔ مزيد شامی افراد کو سياسی پناہ کی فراہمی کے ليے دلما روسيف کی حکومت نے سال رواں کے آغاز ميں جرمنی، يورپی يونين اور اقوام متحدہ کے ساتھ بات چيت شروع کر دی۔ مئی ميں اپنا عہدہ چھوڑنے سے قبل سابقہ وزير انصاف ايوجينيو اراگاؤ نے بتايا تھا کہ برازيل بيس بيس ہزار کے گروپوں ميں اضافی کُل ايک لاکھ شامی مہاجرين کو پناہ فراہم کرے گا۔
سابق صدر دلما روسيف کے خلاف مواخذے کی کارروائی جاری ہے اور اس دوران انہيں ان کے عہدے سے معطل بھی کر ديا گيا ہے۔ نئی حکومت نے شامی مہاجرين کو پناہ دينے سے متعلق جاری بات چيت کو ترک کرنے کا کہا ہے۔
عادل بکور اب بھی پر اميد ہے کہ وہ اپنی والدہ کو حلب سے برازيل بلا سکے گا۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس پيش رفت کے سبب وہاں مقيم شامی پناہ گزينوں ميں بے چينی بڑھ جائے گی۔ عادل کا کہنا ہے، ’’شہری يہ سمجھيں گے کہ حکومت نے يہ فيصلہ کسی سبب ليا ہے، اور وہ يہ کہ يہ لوگ خطرناک ہيں۔‘‘
عبوری صدر ميشل ٹيمر کی انتظاميہ کی نظر ميں موجودہ اقتصادی بدحالی کے وقت شامی پناہ گزينوں کے ليے دل کھول پاليسی ملکی اقتصاديات پر بوجھ مزيد بڑھا دے گی۔