1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'شامی مہاجرین کا نیابحران، یورپی یونین بھی ذمہ دار‘

3 مارچ 2020

ٹِل کیُوسٹر میڈیکو انٹرنیشنل کے شام کے لیے رابطہ کار ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیوکو انٹرویودیتے ہوئے بتایا کہ ترکی کی ادلب میں موجودگی سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے بقول یورپی یونین کی مہاجرین کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Ynjv
Syrien Russische Luftangriffe in Qaminas
تصویر: AFP/I. Yasouf

ڈی ڈبلیو: صوبے ادلب میں صرف شامی دستے ہی اپنے حامیوں کے ہمراہ موجود نہیں ہیں بلکہ ترک فوج بھی وہاں لڑائی میں شریک ہے۔ آج کل وہاں کی صورتحال کیا ہے؟

ٹِل کیُوسٹر: گزشتہ کئی ماہ سے ادلب کے حالات انتہائی تباہ کن ہیں اور کئی ہفتوں سے وہاں ایک بڑے انسانی المیے کے خلاف خبردار بھی کیا جا رہا ہے۔ چند دنوں سے ترک دستے شامی فوج کے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ حزب اللہ اور افغان جنگجوؤں کو بھی فضا سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس دوران ڈرونز بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال گزشتہ نو برسوں میں کبھی سامنے نہیں آئی۔

Deutschland Medico International | Till Küster
ٹِل کیُوسٹر میڈیکو انٹرنیشنل کے شام کے لیے رابطہ کار ہیںتصویر: Medico International

ڈی ڈبلیو: عام شہریوں پر اس کے کیا اثرات پڑ رہے ہیں؟

ٹِل کیُوسٹر: گزشتہ کئی ہفتوں سے عام شہری خوف و ہراس کی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے دس لاکھ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس دوران ادلب کے کچھ حصے ترک فوجیوں کے قبضے میں چلے گئے ہیں اور شامی دستوں کی پیش قدمی رک چکی ہے۔ لیکن عام شہری بدستور پریشان ہیں۔ اب وہ کئی محاذوں کے درمیان کھڑے ہیں اور  ترکی کی سرحد کی جانب بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو: انسانی بحران کی صورتحال کیا ہے؟

ٹِل کیُوسٹر: بہت ہی تباہ کن، کیونکہ حال ہی میں پہنچنے والے افراد کی دیکھ بھال میں مشکل ہو رہی ہے۔ ان دس لاکھ افراد کے لیے کوئی فعال امدادی منصوبہ نہیں ہے، جو در بدر ہو رہے ہیں۔ ان کی فوری مدد نہیں ہو سکتی۔ بہت سے شہریوں کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں اور وہ بھی منجمد کر دینے والے درجہ حرارت میں۔ امدادی نظام مکمل طور پر شدید دباؤ میں ہے۔

Grenze Türkei Griechenland Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Tazegul

ڈی ڈبلیو: ترکی اور یونان کی سرحد پر بھی حالات تناؤ کا شکار ہیں۔ وہاں کی صورتحال کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

ٹِل کیُوسٹر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن ایک مذموم کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ پہلے بھی دھمکی دے چکے ہیں کہ ترکی میں مہاجرین کو مزید نہیں روکا جائے گا، بلکہ انہیں آگے بھیج دیا جائے گا۔ اب بسوں کے ذریعے مہاجرین کو یونان اور بلغاریہ کی سرحدوں پر پہنچایا جا رہا ہے اور ان میں صرف شامی مہاجرین ہی نہیں بلکہ افغان شہری بھی شامل ہیں۔ یقیناً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترک صدر اس بحران کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہیں اور دوسری جانب یہ مہاجرین بھی یورپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی یورپ کی سرحدی نگرانی کے حوالے سے پالیسی بھی شدید ہوتی جا رہی ہے۔  یونانی کوسٹ گارڈز فائرنگ کرتے ہوئے اور  تیزی رفتاری کے ساتھ مہاجرین سے بھری کشتیوں کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں ڈرا دھمکا کر واپس پلٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ تمام اقدامات انسانی حقوق کے جنیوا کنوینش کی خلاف ورزی ہیں۔

ڈی ڈبلیو: کیا آپ یہ کہیں گے کہ یورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق پالیسی ناکام ہونے والی ہے؟

ٹِل کیُوسٹر: یورپی یونین کو ان دونوں ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔ اس کا تعلق صرف سرحدوں کے تحفظ اور نگرانی سے نہیں۔ بلکہ یورپ گزشتہ کئی برسوں سے  لاکھوں افرادکے اصل حالات چھپاتا آیا ہے اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح ان مسائل پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر اسی طرح مہاجرین ترکی سے یورپ میں داخل ہوتے رہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نقل مکانی پر مجبور ان افراد پر بندوقین تانی جا سکتی ہیں؟ کیا ان پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے جا سکتے ہیں؟ کیا ان کی کشتیوں کو ڈبویا جا سکتا ہے؟ اور یہ کہ آیا اس مسئلے کا کوئی ایسا سیاسی حل تلاش کیا جائے، جو ان مہاجرین کے انسانی حقوق کی پاسداری کی ضمانت دے اور اپنے لیے تحفظ کے متلاشی ان انسانوں کا احترام کرے؟ یورپی یونین کو اب اس حوالے سے فیصلہ کرنا ہے۔

میڈیکو انٹرنشینل ایک امدادی ادارہ ہونے کے علاوہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم بھی ہے اور ٹِل کیُوسٹر شام میں اس تنظیم کے رابطہ کار ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی جانب سے کیرسٹن کنِپ نے ان سے بات چیت کی۔

ادلب میں زندگی تنگ ہوتی ہوئی

 ع ا / م م ( کیرسٹن کنپ)