شامی پناہ گزینوں کا سیلاب ترکی کی طرف بڑھتا ہوا
9 جون 2011شامی پناہ گزینوں کی ترکی کی طرف ہجرت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب ترکی کی سرحد سے نزدیک شام کے شمال مغربی شہر جسر الشغور میں 100 سے زیادہ فوجیوں کا قتل عام اب تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اس علاقے میں صورتحال میں مزید شدت پیدا ہونے کے امکانات اور بڑھ گئے ہیں۔
شام کے شمال مغربی شہر جسر الشغور میں ہونے والی خونریزی کے بعد رواں ہفتے کےآغار سے ترکی کی طرف آنے والے شامی باشندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی کی سرحد سے نزدیک شام کے اس شہر میں 100 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے حالات بہت زیادہ کشیدہ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شام کے ایلیٹ دستے اس شہر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ترکی آنے والے شامی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب انقرہ حکومت شام کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ ترک میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ شب 120 شامی پناہ گزین سرحد پار کر کے ترکی پہنچے اور دن کے مختلف حصوں میں مزید 50 پناہ گزینوں کا اضافہ ہوا۔ انقرہ میں وزارت خارجہ کے مطابق بُدھ کے روز تک 420 شامی باشندے ترکی میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کر چُکے ہیں۔ شام کے پناہ گزینوں کے لیے ترکی کی سرحد کھلی رہے گی کیونکہ ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو ان مسائل کا بخوبی اندازہ تھا۔ اُن کے بقول ’جس وقت شام میں ہنگامے شروع ہوئے تھے، اُس وقت سے ترکی نے اُن کے ممکنہ اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے شام سے ترکی آنے والے پناہ گزینوں کے سیلاب سے نمٹنے کی تیاریاں کر لی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے اس بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیا تھا کہ شام میں ایک پُر امن جمہوری تبدیلی کس طرح آ سکتی ہے۔ یہ امر تو واضح ہی ہے کہ اس ملک میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آنا ضروری ہے‘۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے مفرور شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد ترکی پہنچ رہی ہے۔ شام کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر بحیرہ روم پر واقع ترکی کے بڑے شہر انتاکیا کا قریبی صوبہ Hatay ہے۔ آیا یہ شامی پناہ گزین مزید علاقوں تک بھی پھیل جائیں گے، یہ فی الحال ایک کھلا سوال ہے۔ شام کا بحران زیادہ نازک ہو گیا اور ترکی پہنچنے والے شامی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تو صورتحال ترک حکومت کے لیے سنگین شکل اختیار کر جائے گی۔ انسانی بحران سے زیادہ خدشہ سیاسی مسائل کا ہے، کیونکہ ترک وزیر خارجہ پہلے کی طرح اب بھی شامی صدر کو اپنا دوست مانتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے’عرب دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے شروع کے دور میں بشار الاسد کا مبارک اور قذافی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دراصل شامی صدر اب بھی ان سے مختلف ہیں۔ وہ جوان، جہاں دیدہ اور مغرب سے تحصیل یافتہ ہیں۔ انہوں نے متعدد بار اپنے ملک کو تنہائی سے نکالنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے سلامتی کی تشویش ناک صورتحال اور شام میں تشدد کی فضا پیدا ہونے کے سبب بشار الاسد کے اصلاحاتی عمل کو رکاوٹوں کا سامنا ہے‘۔
ماہرین کے خیال میں جلد یا بدیر انقرہ حکومت کو بشار الاسد کی حمایت کی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی