1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی پناہ گزینوں کے لیے عالمی برادری کی امداد ناکافی ہے: اقوام متحدہ

کشور مصطفیٰ4 مئی 2014

اقوام متحدہ نے خانہ جنگی سے تباہ حال ملک شام کے لیے امداد دینے والے ڈونر ممالک پر آج اتوار کو کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گھر بار سے محروم کئی ملين شامی پناہ گزینوں کی کافی مدد نہیں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BtcM
تصویر: DW/R. Asad

عالمی ادارے نے کہا ہے کہ شامی مہاجرین کے لیے "بھاری امداد" کی ضرورت ہے۔ ج شمالی اُردن میں قائم الزاعتری کیمپ میں مصر، اُردن، عراق، لبنان اور ترکی کے سینئر سفارتکاروں کے ساتھ ملاقات کے دوران اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین آنتونیو گوئتیرس نے کہا کہ ان ممالک میں اندراج اور غیر اندراج شدہ دونوں طرح کے قریب تین ملین شامی پناہ گزین پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری اس اتنے بڑے انسانی مسئلے کو صحیح طريقے سے تسلیم نہیں کر رہی ہے۔ گوئتیرس نے اپنے بیان میں مزید کہا، "اس سلسلے میں حکومتی بجٹ اور ترقیاتی پروجیکٹس جیسے کہ تعلیم، ہیلتھ ، پانی کی فراہمی اور بنیادی ڈھانچے وغیرہ کے لیے بین الاقوامی برادری کی طرف سے بہت زیادہ مدد ملنی چاہیے"۔ آج اُردن میں شامی پناہ گزینوں کی صورتحال کے حوالے سے ہونے والے ان اعلیٰ سطحی مذاکرات میں اُردن کے وزیر خارجہ ناصر جودۃ اور اُن کے ترک ہم منصب داؤت اُوگلو اور عراقی وزیر خارجہ ہوشیار زیباری نے بھی شرکت کی۔ بند کمرے میں ہونے والی بات چیت میں مصر کے افریقی امور کے نائب وزیر خارجہ حمدی لوزا اور لبنان کے سماجی امور کے وزیر رشید درباس بھی شامل تھے۔

Syrien UNHCR Konvoi türkische Grenze 20.03.2014
شامی پناہ گزینوں کے لیے ترکی نے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہےتصویر: Reuters

بعد ازاں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین آنتونیو گوئتیرس نے کہا، "یہ امر نہایت ضروری ہے کہ محض اس خطے کے ممالک نہیں بلکہ تمام دنیا کی ریاستیں شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدوں کو کھُلا رکھیں اور پناہ گزینوں کی اپنی سرزمین تک رسائی کے لیے پالیسیوں میں فراخ دلی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو ملحوض رکھیں"۔ گوئتیرس نے کہا ہے کہ آئندہ مہینوں کے دوران شامی پناہ گزینوں کی وسیع پیمانے پر امداد کی ضرورت پیش آئے گی۔ گوئتیرس نے مزيد کہا، "یہ امدادی کام شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک کے لیے محض انسانی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان معاشروں پر اس کے گہرے اقتصادی اور سماجی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

Syrien Flüchtlinge auf dem Weg nach Deutschland 15.04.2014 Beirut
جرمنی آنے والے شامی پناہ گزینتصویر: Reuters

گزشتہ نومبر میں اقوام متحدہ نے شامی خانہ جنگی سے متاثرہ انسانوں کی امداد کے لیے بین الاقوامی برادری سے ساڑھے چار بلین یورو سے زیادہ رقم کی اپیل کی تھی تاہم اس سال جنوری میں کویت میں ڈونرز کانفرنس میں محض 2.3 بلین کے وعدے کيے گئے تھے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق لبنان نے سرکاری طور پر ایک ملین سے زائد شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں جگہ دی ہے جبکہ سات لاکھ شامی پناہ گزین اپنا ملک چھوڑ کر ترکی منتقل ہو گئے ہیں۔ اُردن میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد چھ لاکھ ہے جبکہ دو لاکھ بیس ہزار پناہ گزين عراق ميں اور ایک لاکھ چھتیس ہزار مصر میں موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین گوئتیرس نے شام کی جنگ کے سیاسی حل پر زور دیا۔ اُن کے بقول اس جنگ کا نہ تو انسانی اور نا ہی کوئی عسکری حل موجود ہے۔ اس خونریزی کے خاتمے کے لیے سیاسی راستہ اختیار کرنا ہوگا نیز شامی باشندوں کے لیے امداد کی رسد کو ممکن بنایا جائے۔