شامیسو ایوارڈ یافتہ ایرانی شاعر کا ذریعہء اظہار جرمن زبان
28 جنوری 2010اُنیس ویں صدی کے فرانسیسی ادیب ا ور شاعر آڈلبرٹ فان شامیسو نے اپنی ادبی تخلیقات کے لئے جرمن زبان کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اُنہی سے موسوم شامیسو ایوارڈ سن1985ء سے جرمنی میں ايسے اديبوں کو ديا جاتا ہے، جن کی مادری زبان جرمن نہ ہو لیکن جو اِس زبان ميں کتابيں تصنيف کرتے ہوں۔ عشروں سے میونخ میں قیام پذیر ایرانی شاعر اور ادیب سعيد کے حصے میں یہ انعام سن 2002ء میں آیا تھا۔ وہ جرمن ميں اس لئے لکھتے ہيں کيونکہ ان کی کتب کی اشاعت ايران ميں ممنوع ہے۔
سن 1967ء کے موسم گرما ميں سابق شاہ ايران نے جرمنی کا دورہ کيا تھا۔ اس موقع پر ميونخ ميں بھی طلباء نے شديد مظاہرے کئے تھے کيونکہ وہ شاہ کی آمريت پسند حکومت اور اِس حکومت کی حامی جرمن حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔
ميونخ کے اِن مظاہروں ميں ايک بيس سالہ ايرانی طالب علم سعید بھی شامل تھا، جو دو سال قبل ہی اپنے والد کی خواہش پر جرمنی آیا تھا۔ اُسے سول انجينئرنگ کی تعليم حاصل کرنا تھی ليکن اُس نے پولیٹیکل سائنس یعنی سیاسیات کے ساتھ ساتھ سماجيات اور ادب پڑھنے کا فيصلہ کيا۔ سعيد سياسی طور پر بھی سرگرم تھے اور شاہ کی حکومت کے خلاف پمفلٹ تقسيم کيا کرتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ميونخ ہی شاعر سعيد کے لئے اُن کا دوسرا وطن بن گيا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ہم نے ايران ميں اکثر ديکھا تھا کہ ہز ميجسٹی شاہ کس شان و شوکت کے ساتھ ايئر پورٹ کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ شاہراہوں پر ہر دس ميٹر کے فاصلے پر ايک سپاہی اور ايک فوجی شاہ کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوتے تھے۔ جب شاہ ايران ميونخ آئے تو ميں نے ايک پمفلٹ تقسيم کيا، جس کا عنوان تھا:’’ايران کا قصاب اعلٰی ميونخ ميں‘‘۔ مَيں عمر بھر وہ منظر نہيں بھولوں گا۔ مجھے کسی قسم کا خوف نہيں تھا اور ميں يہاں چوک پر يہ پمفلٹ تقسيم کر رہا تھا۔ ميرے لئے فيصلہ کن بات يہ تھی کہ ايسا بھی ممکن تھا۔ جمہوريت اسے ہی کہتے ہيں۔ ميں نے خود سے کہا کہ اب تم نے جمہوريت کا مزا چکھ ليا ہے۔ اس قسم کے ملک سے آنے والا، جس نے اس سے بہت مختلف حالات ديکھے ہوں، اسے کبھی بھول نہيں سکتا۔‘‘
اِس بات کو اب چاليس سال سے بھی زيادہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ سعید اوورکوٹ پہنے ميونخ ميں اسی چوک پر کھڑے ہيں، جہاں انہوں نے اُس زمانے میں شاہ کے خلاف پمفلٹ تقسيم کئے تھے۔ اب لیکن سعید کی عمر باسٹھ سال ہے اور اُن کی داڑھی میں سفیدی اُتر چکی ہے۔ اُن کے لہجے ميں کپکپاہٹ ہے، صرف سخت سردی کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس لئے بھی کہ اُنہیں خوف اور مايوسی سے پاک اُن دنوں کی ياد آ رہی ہے۔ ايک ايسی نسل کی تحريک نے سعيد کو اُن دنوں اپنے اندر سميٹ ليا تھا، جو ظلم و جبر کی بيڑيوں کو توڑ دينا چاہتی تھی۔
سعيد کہتے ہيں:’’جوش و خروش کے عالم ميں آپ خوف کے بارے ميں نہيں سوچتے۔آپ اس خوشی اور آزادی سے محظوظ ہوتے ہيں، جو آپ کو اچانک تحفتاً ملی ہوتی ہے۔ بعد ميں، جب بغاوت ٹھنڈی پڑ گئی، جب مقدمات شروع ہوئے، جب حکومت کے سخت اقدامات ہميں محسوس ہونا شروع ہوئے، تب خوف کےسايے بھی ابھرنے لگے۔ ميں نے خود سے کہا کہ اب تم نے موقع گنوا ديا۔اب تم کبھی وطن واپس نہيں جاسکو گے۔‘‘
شاہ ايران کی حکومت کے خاتمے کے بعد شاعر سعيد نے ايران واپس جانے کی کوشش کی تاہم نئے حکمرانوں کی عدم رواداری سے مايوس ہو کر وہ دوسال بعد ہی جرمنی واپس آ گئے۔ وہ دوبارہ ميونخ ميں آباد ہوگئے، جہاں انہوں نے ايرانی انقلاب کے بعد کے تنہائی کے برسوں ميں جرمن زبان ميں لکھنا شروع کيا۔
سعید کے مرکزی موضوعات وطن سے محرومی، ظلم و جبر، اذيت رسانی اور دہشت گردی ہيں۔ ساتھ ساتھ زندگی کے عجائب، خوبصورتی سے لگاؤ اور عشق و محبت بھی ان کی بےشمار تحريروں، مضامين، ڈراموں، ناولوں اور اشعار کے موضوعات ہيں۔ وہ جرمن زبان ميں اس لئے لکھتے ہيں کيونکہ وہ صرف جرمنی ہی ميں ايران کے سنسر سے بچ سکتے ہيں۔
انہوں نے جرمن کو مکمل طور پر اہل زبان کے لہجے میں بولنے کے تصور سے چھٹکارا حاصل کر ليا ہے ۔ وہ خود کو صرف سعيد يعنی خوش قسمت کہلانا پسند کرتے ہيں۔
سعيد کہتے ہیں:’’ميرے خيال ميں ايک اجنبی زبان کو اپنانے کے لئے اس قسم کے خود کو آزادی دلانے کے بہت سے قدم اٹھانا پڑتے ہيں۔ يہ ايک طرح کا عشق کا معاملہ ہے۔ جذبہ اور چاہت بھی ہونا چاہيے اور اس کے ساتھ اپنی آزادی کا مظاہرہ بھی اور يہ کہنا کہ ميں يہ چاہتا ہوں۔ يہ دکھانا بھی چاہيے کہ محبوبہ کی چاہت ہے اور اس کے لئے دو چار قدم بھی اٹھانا چاہئيں۔اس کے بعد محبوبہ خود ہی آ جاتی ہے۔
شاعر سعيد حرکت کو پسند کرتے ہیں۔ وہ جمود کے قائل نہيں ہيں، نہ پرانے وطن ايران ميں اور نہ ہی نئے وطن جرمنی ميں۔ اس لئے انہيں اميد ہے کہ طلبا ايک بار پھر مظاہرے کريں گے۔ انہوں نے کہا:’’يورپ میں ايک جمود پيدا ہو چکا ہے تاہم اب طلبا کے احتجاج سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ لاوا پک رہا ہے۔ اميد ہے کہ سياستدان اسے سمجھيں گے اور طالبعلموں کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھائيں گے۔ اس طرح کی تحريک کے بغير ہم کيا ہيں اور ہم کيا ہوتے، يہ ايک بہت اہم سوال ہے۔‘‘
سعيد نے اپنے اس بیان ميں اُن جرمن طلبا کا حوالہ ديا ہے، جو آج کل اپنےتعليمی حالات سے نالاں ہيں اور دیگر جرمن شہروں کے ساتھ ساتھ ميونخ ميں بھی احتجاج کر رہے ہيں۔ فی الحال صورتحال پُرسکون ہے ليکن کسی کو معلوم نہيں کہ آگے چل کر بھی يہی حالت برقرار رہے گی۔ سعيد کے کلام کا نيا مجموعہ "پرندوں کو واپس بلاؤ" کے نام سے عنقریب شائع ہونے والا ہے۔
رپورٹ: ماریون آمِشٹ / شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی