شاہین باغ کی دادی: 100 انتہائی بااثرعالمی شخصیات میں شامل
ٹائم میگزین کی ’2020 کی انتہائی بااثر شخصیات‘ میں 82 سالہ بلقیس بانو بھی شامل ہیں۔ بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ’شاہین باغ کی دادیوں‘ کی ہمت اورعزم نے عوامی تحریک کی ایک نئی سوچ عطا کی ہے۔
تو شاہیں ہے...
بلقیس بانو’شاہین باغ کی دادی‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ حالانکہ وہ اترپردیش کے بلند شہر ضلع کی رہنے والی ہیں اور ان کے شوہر کی تقریباً دس برس پہلے چل بسے تھے۔ جو کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔ بلقیس ان دنوں دہلی میں اپنے بہو بیٹو ں کے ساتھ رہتی ہیں۔
مزاحمت کی علامت
بلقیس بانو مزاحمت کی علامت بن گئی تھیں۔ وہ سخت سردی اور زبردست بارش کے باوجود 100 دنوں سے زائد چلنے والے اس پرامن مظاہرے میں مستقل ڈٹی رہیں۔
خواتین کے لیے مثال
بلقیس بانو کہتی ہیں کہ وہ کئی مرتبہ صبح آٹھ بجے سے رات 12بجے تک مظاہرے میں شامل رہتی تھیں۔ ان کے ساتھ ہزاروں خواتین وہاں موجود ہوتی تھیں۔
منفرد تحریک
خواتین کی اس منفرد تحریک سے حوصلہ پاکر بھارت کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں خواتین نے مظاہرے شروع کردیے تھے۔اسے ’مزاحمت کی علامت‘ قرار دیا گیا۔ شاہین باغ کے مظاہرے نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔
باہمت
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب کہا کہ وہ متنازعہ سی اے اے قانون سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے تو بلقیس بانو کا جواب تھا’اگر وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے تو ہم ایک بال برابر بھی پیچھے نہیں ہٹنے والے۔“
جب انگریزوں کو نکال دیا تو...
بلقیس بانو نے مظاہرے کے دوران ایک بار کہا تھا’وہ ہمیں غدار کہتے ہیں۔ جب ہم انگریزوں کو ملک سے باہر نکال چکے ہیں تو نریندر مود ی اور امیت شاہ کون ہیں؟ آپ سی اے اے اور این آر سی ہٹالیں، تو ہم ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر دھرنا ختم کردیں گے۔“
آئیکون
ٹائم میگزین نے بلقیس بانو کو ’آئیکون‘ کی فہرست میں جگہ دیتے ہوئے لکھا ہے”بلقیس نے آمریت کی طرف پھسلتے جارہے ملک میں، سچ بولنے کی وجہ سے جیلوں میں ڈالے جانے والے کارکنوں اور طلبہ لیڈروں کو امید اور طاقت دی اور ملک بھر کی عورتوں کوشاہین باغ جیسا پرامن مظاہرہ کرنے کا حوصلہ بخشا۔“
جھوٹے الزامات
پرامن مظاہرہ کرنے والی ان خواتین کو اس بات سے مایوسی بھی ہوئی کہ بھارتی پارلیمان گوکہ شاہین باغ سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ ان کی بات سننے کے لیے نہیں آیا البتہ ان پر انتہائی گھٹیا اور جھوٹے الزامات ضرور لگائے۔
عملی تحریک
شاہین باغ ایک اس لحاظ سے بھی ایک منفرد تحریک تھی کہ لوگوں نے عملی تحریک کے ساتھ ساتھ علمی معلومات بھی حاصل کی۔ سڑک کے کنارے ایک عارضی لائبریری بنائی گئی تھی اور بچوں کے لیے ایک خیمے میں اسکول۔
ہم سب ساتھ ہیں
شاہین باغ تحریک ایک کل مذہبی عوامی تحریک تھی۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب نے اپنی صلاحیت اور اپنی بساط کے مطابق اس میں اپنا تعاون ادا کیا۔
ہم شرمندہ نہیں ہونا چاہتے
ما ئیں اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر اس مظاہرے میں شامل رہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے۔
نریندر مودی بھی شامل
ٹائم میگزین کی اس فہرست میں وزیر اعظم نریندرمودی کا نام بھی شامل ہے۔ میگزین نے اس حوالے سے لکھا ہے ” نریندر مودی کے عروج کے بعد بھارتی جمہوریت کی تکثیریت حملے کی زد میں ہے۔ خاص طورپر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا گیا اور دنیا کی سب سے متحرک جمہوریت گہری تاریکی میں گر گئی ہے۔“
متنازعہ قانون
متنازعہ شہریت ترمیمی قانون میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ستائے جانے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی مذہبی اقلیتوں کو بھارت آنے پر شہریت دینے کی گنجائش ہے لیکن مسلمانوں کو اس کے اہل نہیں ہوں گے۔
نئی نسل کے لیے مثال
شاہین باغ کی تحریک نے مستقبل کی نسل کو بھی عوامی تحریک کی اہمیت اور افادیت سے عملی طور پر آگاہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
تکثیریت کا خاتمہ
ٹائم میگزین نے لکھا ہے سات دہائیوں سے بھارت دنیا کا سب سے عظیم جمہوری ملک ہے۔ اس کی 130کروڑ آبادی میں ہندو، مسلم، سکھ عیسائی، بودھ، جین او ر دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔ لیکن اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت نے بھارت میں تکثیریت کو ختم کردیا ہے۔ تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی