شدت پسندوں کے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر
18 نومبر 2014گزشتہ برس شدت پسندوں کے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساٹھ فیصد سے زائد اضافے کے ساتھ تقریباﹰ اٹھارہ ہزار ہو گئی تھی جو ایک ریکارڈ سطح تھی۔ تاہم ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور نائجیریا میں مسلح تنازعوں کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 2014ء میں مزید اُوپر جا سکتی ہے۔
یہ باتیں آسٹریلیا اور امریکا میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) نے اپنے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں بتائی ہیں۔ اس رپورٹ میں گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے اعدادوشمار کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اس کے مطابق عراق، شام، افغانستان، پاکستان اور نائجیریا میں سرگرم چار اسلام پسند گروپ 2013ء میں ہونے والے دو تہائی حملوں کے لیے ذمہ دار رہے۔ بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی ان ملکوں میں ہی ہوئیں۔
اس رپورٹ کے مطابق شدت پسندوں کے حملوں میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہوا ہے جن کے نتیجے میں گزشتہ برس دو درجن ملکوں میں سے ہر ایک میں پچاس سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔
انتہائی چار سرگرم شدت پسندوں گروپوں میں عراق و شام کا اسلامک اسٹیٹ (داعش)، نائجیریا کا بوکو حرام، پاکستان اور افغانستان کے طالبان اور دہشت گرد گروہ القاعدہ سے منسلک گروپ شامل ہیں۔
آئی ای پی کے بانی اسٹیو کیلیلی کا کہنا ہے: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو گھمبیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات پیچیدہ ہیں لیکن زیادہ تر ہلاکتوں کے لیے ذمہ دار چار گروپوں میں سے ہر کسی کی جڑیں بنیاد پرست اسلامی نظریوں سے نکلتی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’وہ مغربی تعلیم کے فروغ پر خاص طور پر غصے میں ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں روکنے کے لیے کسی بھی طرح کی سماجی تحریک کی کوشش مشکل ہے، اس سے ان کی دشمنی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔‘‘
گزشتہ برس شدت پسندوں کے حملوں میں چوالیس فیصد اضافہ ہوا جبکہ 2012ء میں ایسے حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار رہی تھی۔
آئی ای پی کی رپورٹ کے مطابق 2000ء کے مقابلے میں اس نوعیت کے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس وقت پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔ اس کے مطابق گو کہ زیادہ تر حملے مذہبی وجوہات کی بناء پر کیے جا رہے ہیں لیکن بعض حملوں کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ چھٹے متاثرہ ملک بھارت میں گزشتہ برس کمیونسٹ شدت پسندوں کے حملوں میں ستّر فیصد اضافہ ہوا۔ ان میں سے بیشتر جان لیوا نہیں تھے۔