شرمین عبید کی ایک اور کامیابی
29 فروری 2016اکیڈمی ایوارڈ کی بہترین دستاویزی فلم کا اعزاز حاصل کرنے کی حقدار قرار پانے والی اس فلم کا موضوع پاکستانی قدامت پسند معاشرے میں صدیوں سی چلی آ رہی ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کی روایت ہے۔
شرمین عبید کی یہ دوسری فلم ہے جسے آسکر انعام سے نوازا گیا ہے۔ ’’ غیرت کے نام پر قتل‘‘ کے موضوع پر فلمیں بنا کر شرمین عبید نے ساری دنیا کی توجہ اُس اہم معاشرتی مسئلے سے پر مرکوز کروا دی ہے، جو بہت سے دیگر قدامت پسند معاشروں کی خواتین کے ساتھ ساتھ پاکستانی عورتوں کا المیہ بھی ہے۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں منعقدہ 88ویں اکیڈمی ایوارڈز میں شرمین عبید کی اس موضوع پر بنائی جانے والی فلم کا مقابلہ چار دیگر فلموں سے تھا۔
شرمین عبید نے اتوار کو لاس اینجلس میں ہونے والی آسکر ایوارڈز کی شاندار تقریب سے پہلے ابھی حال ہی میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات بھی کی تھی اور اس بات چیت میں شرمین نے وزیر اعظم پاکستان سے کہا تھا کہ انہیں معاشرے میں پائی جانے والی ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کی فرسودہ روایت کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہییں کیونکہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر بھی غیر معمولی توجہ کا حامل بن چُکا ہے۔
گزشتہ روز شرمین کو ملنے والا یہ ایوارڈ اُن کے کیریئر کا دوسرا اکیڈمی ایوارڈ ہے۔ انہوں نے 2012ء میں دستاویزی فلم ’سیونگ فیس‘ کے لیے بھی آسکر ایوارڈ جیتا تھا۔
اس بار اپنی مختصر دورانیے کی فلم ’آ گرل اِن دا ریور: دا پرائز آف فارگیونس‘ کے لیے آسکر انعام حاصل کرتے ہوئے شرمین کا کہنا تھا، ’’جب پُرعزم خواتین اکٹھی ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ شرمین نے اس موقع پر تاہم اپنے ملک کے بہت سے بہادر مردوں کی تعریف بھی کی۔ انہوں نے کہا، ’’میرے والد اور میرے شوہر جیسے مرد قابل تعریف ہیں۔ یہ خواتین پر تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے لیے زور دیتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ معاشرے میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ انصاف ملے۔‘‘
شرمین کی یہ فلم ایک 19 سالہ لڑکی صبا کی کہانی ہے، جسے اس کے رشتے داروں نے غیرت کے نام پر قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش میں صبا گھر سے بھاگ گئی تھی جسے پکڑ کر اُس کے گھر والوں نے اُسے زد و کوب کرنے اور گولی مارنے کے بعد مردہ تصور کرتے ہوئے دریا میں پھینک دیا تھا مگر وہ معجزانہ طور پر بچ گئی تھی۔ گولی صبا کے سر کی بجائے اُس کے گالوں پر لگی تھی۔ وہ نہ صرف بچ گئی بلکہ ہمت کر کے وہ پولیس تک پہنچ گئی۔
تاہم پاکستان میں رائج ایک متنازعہ اسلامی قانون کے تحت قتل کا جرم کرنے والے مردوں کو مقتول کے گھر والوں کی طرف سے خون بہا کی رقم مل جانے پر معافی کی صورت میں سزا سے بچنے کا موقع مل جاتا ہے۔