شمالی افریقی مہاجرین: کیا شینگن معاہدہ خطرے میں ہے؟
20 اپریل 2011شمالی افریقہ، بالخصوص تیونس اور لیبیا سے ہجرت کرنے والے بہت سے افراد اٹلی پہنچ گئے ہیں۔ اطالوی حکومت ہجرت کرنے والے ان افراد کو عارضی رہائشی پرمٹ دے چکی ہے جس کے بعد وہ یورپ کے شینگن ممالک میں کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے باعث یورپی ممالک، خاص طور پر اٹلی اور فرانس کے درمیان تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ فرانس اور جرمنی نے اطالوی حکومت کی جانب سے شمالی افریقی مہاجرین کو رہائشی پرمٹ دیے جانے کے فیصلے پر کڑی تنقید کی تھی۔ حال ہی میں فرانس نے عارضی طور پر اٹلی سے آنے والی ٹرینوں کو ملک کے اندر آنے سے روک بھی دیا تھا۔
کیا یورپی یونین کا شینگن معاہدہ مشکلات سے دوچار ہے؟ یورپی یونین کی کمشنر برائے مہاجرین سسیلیا مالمسٹروم کا کہنا ہے کہ پچیس ممالک کے درمیان آزادانہ اور بنا پاسپورٹ کے نقل و حمل کا شینگن معاہدہ قائم رہے گا۔ ان کا کہنا تھا: ’شینگن یورپی یونین کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔ اگر شینگن ناکام ہوتا ہے تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ یورپی یونین کی پھر کیا افادیت ہے‘۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف بعض یورپی ممالک ہی شمالی افریقی مہاجرین کی یورپ ہجرت سے خائف ہیں یا اس کی مخالفت کر رہے ہیں، خود اٹلی میں بھی دائیں بازو کی جماعتیں، جو تاریخی طور پر اپنے ہاں مہاجرین کی آبادکاری کے خلاف ہیں، اطالوی حکومت کے فیصلے پر احتجاج کر رہی ہیں۔ اطالوی حکومت میں شریک ناردرن لیگ جماعت وزیرِ اعظم سلویو برلسکونی کی حکومت پر اس حوالے سے دباؤ ڈالے ہوئے ہے۔
اقتصادی بحران کے باعث یورپ میں دائیں بازو کی جماعتیں عوامی تائید حاصل کر رہی ہیں۔ مبصرین کی رائے ہے کہ شمالی افریقہ سے مہاجرین کی آمد ان جماعتوں کو مزید تقویت دے گی۔
خیال رہے کہ تیونس سے پچیس ہزار کے قریب افراد اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ یونان بھی کچھ اسی طرح کی صورتِ حال کا شکار ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد