شمالی سری لنکا میں پچیس سال بعد الیکشن
21 ستمبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز کی جافنا سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکا میں چھبیس سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر ملکی فوج نے کارروائی کر کے چار سال پہلے تامل علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک کو حتمی طور پر ناکام بنا دیا تھا۔ لیکن آج وہاں جو علاقائی الیکشن ہو رہے ہیں، ان کے نتیجے میں تامل نسل کی اقلیتی آبادی اور کولمبو حکومت کے مابین نئے سرے سے کھچاؤ کا خطرہ بھی موجود ہے۔
شمالی سری لنکا میں صوبائی کونسل کے الیکشن وہاں گزشتہ قریب 25 برس میں ہونے والے اپنی نوعیت کے اولین انتخابات ہیں۔ یہ علاقہ ماضی میں تامل ٹائیگرز کہلانے والے علیحدگی پسندوں کی طاقت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ وہاں موجودہ ملکی صدر مہیندا راجا پاکسے نے صوبائی کونسل کے الیکشن کرانے کا فیصلہ کافی زیادہ بین الاقوامی دباؤ کے بعد کیا۔ اس سلسلے میں صدر راجا پاکسے پر دباؤ تھا کہ وہ تامل اقلیتی آبادی والے علاقوں میں بھی جلد از جلد جمہوریت کی بحالی کو یقینی بنائیں۔
جافنا سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق آج کی عوامی رائے دہی کے نتیجے میں اگر راجا پاکسے کی جماعت کو ناکامی ہو گئی تو یہ زیادہ تر محض علامتی نوعیت کی ہو گی۔ لیکن دوسری طرف انتخابی فتح تامل آبادی کی مرکزی سیاسی جماعت تامل نیشنل الائنس (TNA) کو ملنے کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ تامل عوام کی طرف سے خود مختاری کے مطالبات ایک بار پھر زور پکڑ جائیں۔
اس الیکشن میں اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے رائے دہندگان کی جو طویل قطاریں صبح سے ہی پولنگ اسٹیشنوں کے سامنے دیکھنے میں آئیں، ان میں شامل بہت سے ووٹر انتخابی مراکز کا رخ کرنے سے پہلے صبح سویرے عبادت کے لیے مندروں سے ہو کر وہاں پہنچے تھے۔
اس موقع پر کئی ووٹروں نے اپنی سیاسی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ سری لنکا کی ابھی تک شمالی حصے میں موجود قومی فوج کو اس علاقے سے نکل جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ کئی رائے دہندگان نے یہ مطالبے بھی کیے کہ ملکی فوج خانہ جنگی کے آخری مہینوں میں انسانی حقوق کی جن شدید خلاف ورزیوں کی مرتکب ہوئی تھی، ان کی باقاعدہ چھان بین کرائی جائے۔ اس دوران کئی ووٹروں نے اپنی سیاسی رائے کا اظہار بھی کیا کہ سری لنکا کے موجودہ مسائل کا حل تامل آبادی کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا قیام ہی ہو سکتا ہے۔
ان علاقائی انتخابات کے حوالے سے رائے دہی سے پہلے تامل باشندوں کی مرکزی سیاسی جماعت نیشنل الائنس کے چند انتخابی امیدواروں کی طرف سے یہ الزامات بھی لگائے گئے تھے کہ انہیں مبینہ طور پر ریاستی سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور کولمبو میں حمکران اتحاد کے سیاسی کارکنوں کی طرف سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ آج ووٹنگ شروع ہونے کے بعد ایسے امیدواروں میں سے کئی سیاستدانوں نے انتخابی عمل میں بےقاعدگیوں کی شکایت بھی کی۔
جافنا میں ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ دینے کے بعد ایک 51 سالہ خاتون پشپاوتی نے روئٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’تامل لوگ آزادی چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ہماری زمینیں واپس کی جائیں اور ہمیں آزادانہ نقل و حرکت کا حق بھی حاصل ہو۔‘‘
سری لنکا کے صدر راجا پاکسے کا تعلق ملک کی اکثریتی سنہالی آبادی سے ہے۔ ان کی مخلوط حکومت کو قومی پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور آٹھ دیگر منتخب صوبائی کونسلوں میں بھی اس کے ارکان کی اکثریت ہے۔ اب راجا پاکسے کی خواہش ہے کہ سابقہ جنگی علاقے کی صوبائی کونسل کے الیکشن بھی انہی کی جماعت کو جیتنے چاہییں۔
آج کے الیکشن کے موقع پر کئی پولنگ اسٹیشنوں کے پاس لگے وہ پوسٹر بھی معنی خیز تھے، جن میں عام ووٹروں سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے پہلے ایک کے بجائے دو مرتبہ سوچنے کا کہتے ہوئے یہ پوچھا گیا تھا، ’’کیا آپ کو واقعی تامل نیشنل الائنس کو ووٹ دینے کی ضرورت ہے؟‘‘