’شمالی کوریا نے جوہری آلات کا حصول جرمن سرزمین سے کیا‘
4 فروری 2018جرمنی کی داخلی خفیہ ایجنسی BfV کے سربراہ ہنس گیورگ مآسین نے پبلک براڈ کاسٹر NDR سے گفتگو میں کہا ہے کہ کمیونسٹ ملک شمالی کوریا نے برلن میں واقع اپنے سفارتخانے کو استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کی اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیونگ یانگ نے اس ٹیکنالوجی کو اپنے میزائل اور جوہری پروگرام میں استعمال بھی کیا۔
شمالی کوریا نے بین شدہ مصنوعات فروخت کیں، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی پابندیاں ’جنگی اقدام‘ ہے، شمالی کوریا
امریکا کے ساتھ جنگ اب ’ناگزیر‘ ہے، شمالی کوریا
جرمن پبلک نشریاتی ادارے این ڈی آر نے مآسین کے اس انٹرویو کا کچھ حصہ ہفتے کے دن شائع کیا تاہم ان کا مکمل انٹرویو پیر کے دن نشر کیا جائے گا۔
تحفظ آئین کا وفاقی دفتر کہلانے والی اندرون ملک سلامتی کی نگران جرمن انٹیلیجنس سروس یا BfV کے سربراہ کے اس انٹرویو کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اس اںٹرویو میں البتہ مآسین نے یہ نہیں بتایا کہ برلن کے سفارتخانے کو استعمال کرتے ہوئے شمالی کوریا نے جو ٹیکنالوجی حاصل کی ہے، وہ کس نوعیت کی ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کہا کہ ان میں کچھ ایسے جدید آلات شامل ہیں، جو میزائل اور جوہری پروگرام میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
این ڈی آر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار سولہ اور سترہ میں جرمن خفیہ ادارے BfV کو معلومات حاصل ہوئی تھیں کہ شمالی کوریا نے جرمن دارالحکومت میں واقع اپنے سفارتخانے کے ذریعے کچھ جدید آلات حاصل کیے تھے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پیونگ یانگ نے مبینہ طور پر انہی آلات کو اپنے جوہری پروگرام میں بہتری کے لیے بھی استعمال کیا۔
اس نئے انکشاف سے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کی تصدیق ہوتی ہے کہ شمالی کوریا دانستہ طور پر عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا نے میانمار کو بیلسٹک میزائل نظام فروخت کرنے کے علاوہ شامی حکومت کو کیمائی ہتھیار تیار کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔
عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ پیونگ یانگ حکومت کا جوہری اور میزائل پروگرام عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ تاہم شمالی کوریا اپنے ان منصوبہ جات کو دفاعی نوعیت کا قرار دیتا ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے متعدد قراردادوں کی خلاف وزری کرتے ہوئے شمالی کوریا اپنے میزائل پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ برس انہی کارروائیوں کے باعث اقوام متحدہ نے اس ملک پر عائد پابندیوں کو مزید سخت بنا دیا ہے۔