شمالی کوریا کا جارحیت کی جانب جھکاؤ کیوں؟
17 جون 2020جنوبی کوریا کے سرحدی قصبے کیسونگ پر قائم رابطے کے دفتر کو شمالی کوریائی حکومت کی جانب سے تباہ کرنے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید گراوٹ پیدا ہوئی ہے۔ اس باعث سرحدی صورت حال میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ جنوبی کوریائی دارالحکومت سیئول کے فوجی حلقے نے تصدیق کی ہے کہ شمالی کوریا نے اپنے رابطہ آفس کو پوری طرح تباہ کر دیا ہے۔ اس دفتر کو بارود سے اڑانے کے دھماکے کی آواز جنوبی کوریا کے دیگر سرحدی قصبات میں سنی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: شمالی کوريا اب فوجی صلاحيت کيوں بڑھا رہا ہے؟
ہ امر اہم ہے کہ کیسونگ نام کے جنوبی کوریائی سرحدی مقام پر واقع یہ دفتر گزشتہ کچھ عرصے میں جزیرہ نما کوریا میں رابطہ کاری کے مرکزی مقام کی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھا۔ اس کو تباہ کرنے کے حوالے سے شمالی کوریا کا کہنا تھا کہ اس مقام سے منحرفین اور انسانی حقوق کے کارکن غباروں میں پراپیگنڈا مواد بھر کر روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ کمیونسٹ ملک نے ان افراد کو 'زمین کی غلاظت‘ سے تعبیر کیا ہے۔
کشیدگی بڑھنے میں اضافے کی ایک بڑی وجہ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کِم جونگ اُن کی بہن کم یو جونگ کی جنوبی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران کم یو جونگ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سپریم لیڈر، پارٹی اور ریاست نے جو اختیار انہیں تفویض کیا ہے اس کی روشنی میں ہتھیاروں کے نگران محکمے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگلے اقدام کے لیے تیار رہے۔ کِم جونگ اُن کی بہن نے مزید کہا کہ ان کی فوج عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مناسب قدم ضرور اٹھائے گی۔دوسری جانب شمالی کوریا کو اس کا بھی یقین ہے کہ وہ چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات اور اتحاد کو مزید استحکام دے گا۔ اس دوران روس نے جزیرہ نما کوریا کے دونوں ملکوں کو ضبط و تحمل کی تلقین کرتے ہوئے غیر ضروری محاذ آرائی سے اجتناب کرنے کا کہا ہے۔
مزید پڑھیے: شمالی کوریا کے رہنما کِم دوبارہ منظرعام پر آگئے
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کی اگلے دنوں میں سرحدی کشیدگی میں اضافے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت حال میں ہر ممکن انداز میں ضبط کا مظاہرہ کرے گا۔ سیئول کی ٹرائے یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل پنکسٹن کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کشیدگی میں اضافے کے حوالے سے بحیرہ زرد (جزیرہ نما کوریا کی مغربی ساحلی پٹی) میں بھی اشتعال انگیزانہ سرگرمیاں شروع کر سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پنکسٹن نے یہ بھی کہا کہ شمالی کوریائی حکومت غیر فوجی سرحدی علاقے میں بھی اپنی جارحانہ سرگرمیوں کے سلسلے کا آغاز کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔
پروفیسر ڈینیئل پنکسٹن کے مطابق امریکا اور جنوبی کوریا میں فوجیوں کی تعیناتی کی مد میں مالی ادائیگی میں اضافے کے امریکی مطالبے کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے قدرے دوری پائی جاتی ہے۔ شمالی کوریا اس دوری کا بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ جزیرہ نما کوریا میں امریکی فوجیوں کو موجود رکھنے کے لیے سیئول حکومت نے مالی ادائیگیوں میں اضافہ نہ کیا تو فوج واپس طلب کی جا سکتی ہے۔
حالیہ مہینوں میں متعدد مرتبہ امریکی و جنوبی کوریائی فوجوں کی مشترکہ مشقیں منسوخ کی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کم جونگ ان صدر ٹرمپ کی داخلی مشکلات سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ع ح، ع آ (ژولیان رویال)