شمالی کوریا کے ساتھ فوری مذاکرات کا امکان نہیں ہے، ٹِلرسن
7 اگست 2017امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرس نے آج سات اگست کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں ہونے والے ایک سکیورٹی فورم کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن صرف اُس صورت میں پیونگ یانگ کے ساتھ مذاکرات پر غور کرے گا جب وہ اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام ترک کر دے۔ تاہم شمالی کوریا بارہا اس عزم کو دہرا چکا ہے کہ وہ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
ٹلرسن کے مطابق، ’’شمالی کوریا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، بہترین اشارہ یہ دے سکتا ہے کہ وہ میزائل داغنے کا سلسلہ بند کر دے۔‘‘ تاہم انہوں نے جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات سے بچنے کے لیے امریکی سفارت کاروں کی پیونگ یانگ حکومت کے ساتھ مذاکرات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹِلرسن کا یہ مؤقف ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب اتوار کے روز ہی جنوبی اور شمالی کوریا کے وزرائے خارجہ کے درمیان منیلا فورم کے حاشیے میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یونگ ہو نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ ان کی حکومت کو تازہ پابندیوں سے کوئی فرق پڑا ہے۔
شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن کی طرف سے جوہری طاقت بننے کی کوششوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ہفتہ پانچ اگست کو شمالی کوریا کے خلاف امریکا کی طرف سے پیش کردہ پابندیوں کی ایک قرارداد کو مکمل اتفاق رائے سے منظور کیا۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں اس کمیونسٹ ریاست کو سالانہ ایک بلین ڈالرز کا معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
شمالی کوریا کے خلاف یہ پابندیاں اُن دو بین البراعظمی میزائلوں کے تجربات کے ردعمل میں لگائی گئی ہیں جن کے بارے میں شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکا کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے جنوبی کوریائی ہم منصب مُون جے اِن کے درمیان اتوار چھ اگست کو ہونے والی ایک ٹیلی فونک گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شمالی کوریا دنیا کے زیادہ تر ممالک کے خلاف ’’براہ راست ایک بڑا خطرہ‘‘ بن گیا ہے۔ اس گفتگو کے بعد ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹس کے ذریعے امریکا اور چین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے شمالی کوریا کےخلاف سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرار داد کو ویٹو نہیں کیا۔