1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

شکست کھانے پر بھی ٹرمپ آسانی سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے

24 ستمبر 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ صدارتی انتخابات میں ناکام ہونے پر بھی آسانی سے اقتدار کی منتقلی کے عزم سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ اتنی آسانی سے پرامن طریقے سے ہو سکے گا۔

https://p.dw.com/p/3ivV6
USA Präsident Donald Trump Wahlkampf PK
تصویر: Tom Brenner/Reuters

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے کہ انتخابات میں اپنی شکست کے بعد بھی وہ آسانی سے اقتدار کامیاب امید وار کو منتقل کر دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاک سے ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خدشہ ہے اس لیے وہ پہلے دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ الیکشن میں ہارتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ زیادہ امریکی شہریوں نے ان کے خلاف ووٹ دیا بلکہ اس کی وجہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ اور دھاندلی ہوگی۔

واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں اپنے حریف جو بائیڈن سے شکست کے بعد وہ پرامن طور پر اقتدار کی منتقلی کے لیے پرعزم  ہیں؟ تو انہوں نے کہا،'' ہم دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔'' انہوں نے کہا، ''امن بہت ہوگا،۔۔۔۔۔ بے تکلفی سے کہوں تو منتقلی نہیں ہوگی۔۔۔ بلکہ یہ جاری رہیگا۔ آپ کو معلوم ہے کہ بیلٹ پر کنٹرول نہیں ہے، اسے آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔''

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چونکہ انہیں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ پر شک ہے اس لیے ان کی نظر میں انتخابی نتائج سپریم کورٹ تک جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کہ وہ میل کے ذریعے ووٹنگ کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن کئی ریاستیں کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظرعوام سے ڈاک کے ذریعے ووٹ کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں تاکہ لوگ زیادہ تعداد میں ووٹ کر سکیں۔

امریکا کی تاریخ میں یہ ایک بہت ہی غیر معمولی بات ہے کہ ملک کا صدر خود ہی جمہوری نظام کے لیے اپنے ہی انتخابی نظام پر بے اعتمادی کا اظہار کرے۔ لیکن صدر ٹرمپ ماضی میں بھی اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں اور گزشتہ انتخابات میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہیلری کلنٹن کامیاب ہوئیں تو وہ ان انتخابات کو تسلیم نہیں کریں گے۔

صدر ٹرمپ کی اس بیان کی ان کے حریف جو بائیڈن نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان سے جب صحافیوں نے اس بارے میں سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا، ''آخر ہم کون سے ملک میں ہیں؟ مجھے تو اس پر ہنسی آرہی ہے۔ دیکھیے وہ اس طرح کی بہت ہی غیرمعقول باتیں کرتے رہے ہیں۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ اس پر کیا کہوں لیکن مجھے ان کے بیان پر کوئی حیرانی بھی نہیں ہے۔'' 

جو بائیڈن کی انتخابی مہم کی ٹیم نے بھی اس پر اپنے رد عمل میں کہا، ''اس انتخاب کا فیصلہ امریکی عوام کرنے والی ہے۔ امریکا کی حکومت اس لائق ہے کہ وائٹ ہاؤس میں غیر قانونی طور پرداخل ہونے والوں کو وہاں سے بے دخل کرسکے۔''

امریکا میں انسانی حقوق کی معروف تنظیم 'امریکن سول لبرٹی یونین نے بھی ٹرمپ کے بیان کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ ''جمہوریت کی بقا کے لیے اقتدار کی پرامن منتقلی بہت ضروری ہے۔امریکی صدر کا بیان ہر امریکی شہری کے لیے پریشانی کا باعث ہونا چاہیے۔''

امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے آئندہ تین نومبر کو ووٹ ڈالیں جائیں گے جس میں صدر ٹرمپ کے سامنے ڈیموکریٹک پارٹی کے امید جو بائیڈن ان کے مد مقابل ہیں۔ انتخابات سے قبل مختلف جائزوں سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ مختلف محاذوں پر ناکامیوں کے سبب صدر ٹرمپ بائیڈن سے پیچھے ہیں۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں میں کانٹے کی ٹکر ہے اور ایک دلچسپ مقابلے کی امید کی جا رہی ہے۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)  

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں