شکیل آفریدی کی سزا منسوخ، مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم
30 اگست 2013پشاور سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز یا FCR نامی قوانین کے اطلاق کی نگرانی کرنے والے کمشنر صاحبزادہ محمد انیس نے حکم دیا ہے کہ جس اہلکار نے ڈاکٹر آفریدی کو 33 برس قید کی سزا سنائی، وہ اس مقدمے کی سماعت کرنے کا مجاز ہی نہیں تھا۔ اس طرح یہ مقدمہ اور اس کے اختتام پر ڈاکٹر آفریدی کو سزا سنانے کا عمل شروع سے ہی انتظامی اور طریقہء کار سے منافی تھا۔
اس مقدمے کی سماعت خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے نائب نے کی تھی۔ مئی 2012ء میں ڈاکٹر آفریدی کو ’ریاست کے خلاف سازش‘ کے الزام میں جو سزا سنائی گئی تھی، اس کی وجہ ملزم کا اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی سی آئی اے کی مدد کرنے کا عمل نہیں بنا تھا۔ اس کے برعکس ڈاکٹر آفریدی کو یہ سزا پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مسلمان عسکریت پسندوں کو طبی سہولیات کی فراہمی اور رقوم مہیا کرنے کے جرم میں سنائی گئی تھی۔
تب عسکریت پسندوں سے تعاون کے ان الزامات کی ڈاکٹر آفریدی کے اہل خانہ اور عسکریت پسندوں نے بھی تردید کی تھی۔ اب ایف سی آر کمشنر صاحبزادہ محمد انیس کے فیصلے کے مطابق ملزم کے خلاف مقدمے کی نئے سرے سے سماعت خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کو خود کرنا ہو گی۔
ڈاکٹر آفریدی کے وکیل سمیع اللہ خان نے ایف سی آر کمشنر کے اس مقدمے کی نئے سرے سے سماعت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کو سنائی گئی 33 سال قید کی سزا ’ قطعی طور پر غیرقانونی‘ تھی۔ تاہم ساتھ ہی سمیع اللہ خان نے اس بارے میں ایک بار پھر اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر آفریدی کے خلاف دوبارہ سماعت بھی FCR ہی کے تحت مکمل کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے مؤکل کے خلاف مقدمے کی سماعت پاکستان کے عمومی نظام عدل کے تحت کسی باقاعدہ عدالت کو کرنا چاہیے۔
سی آئی اے کی مدد کرنے والے ڈاکٹر آفریدی کے خلاف یہی مقدمہ اور پھر سزا پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں کھچاؤ کی وجہ بھی بنا۔ اس طرح اسلام آباد اور واشنگٹن کے وہ دوطرفہ روابط کافی پیچیدہ ہو گئے تھے جو طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ اور پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں کامیاب مذاکرات کے حوالے سے انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی حکام کئی بار یہ مطالبے کر چکے ہیں کہ ڈاکٹر آفریدی کو رہا کیا جانا چاہیے۔ پشاور میں شکیل آفریدی کو مئی 2012ء میں سنائی گئی 33 برس قید کی سزا کے جمعرات کے روز منسوخ کیے جانے کے بعد واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان نے کہا کہ شکیل آفریدی کا مسلسل حراست میں رکھا جانا ’بالکل غلط سمت میں بھیجا جانے والا پیغام‘ ہے۔
پاکستانی قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے تحت چلائے جانے والے مقدمات میں فیصلہ وہاں متعین پولیٹیکل ایجنٹ کہلانے والا ایک حکومتی اہلکار کرتا ہے، جس کی تعیناتی اسلام آباد حکومت کرتی ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے لیے قبائلی عمائدین اور سرکردہ مقامی شخصیات پر مشتمل ایک کونسل سے مشاورت بھی کی جاتی ہے۔