شہری حقوق کا مسئلہ، کشمیر میں مظاہرے جاری
1 ستمبر 2018بھارتی دستور کے آرٹیکل 35 اے کے تحت بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں مستقل رہائش کے حامل افراد کو بھارتی شہریت دی جاتی ہے، جب کہ ملک کے دیگر خطوں کے افراد پر پابندی عائد کی جاتی ہے کہ وہ خطہء کشمیر میں کسی بھی طرح کی جائیداد یا اراضی خرید نہیں سکتے۔ اسی طرح دیگر خطوں کے علاقوں کو کشمیر میں ملازمت اختیار کرنے یا ووٹ ڈالنے سے بھی اسی شق کے تحت روکا جاتا ہے۔ تاہم ایک غیرسرکاری تنظیم نے اس دستوری شق کے خاتمے کے لیے بھارت کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اس درخواست پر سماعت جمعے کے روز ہونی تھی، تاہم عدالت نے اس کی سماعت کو جنوری تک ملتوی کر دیا ہے۔
جلتی ہوئی جنت: کشمیر ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے
عمران خان کی بھارت کو مذاکرات کی پیشکش
یہ بات اہم ہے کہ کسی بھی دوسرے علاقے کے شہری کو کشمیر میں زمین یا جائیداد خریدنے سے روکنے سے متعلق حکم سن 1927 میں اس ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے جاری کیا تھا۔ سن 1954 میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے اسے بھارتی دستور کا حصہ بنایا گیا تاکہ اس خطے کے افراد اور ان کی شناخت کی ضمانت دی جا سکے۔
اس پٹیشن کے بعد بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں متعدد مظاہرے ہوئے، جب کہ جمعے کو دوسرے روز بھی کشمیر کے متعدد علاقوں میں جزوی کرفیو کا نفاذ رہا اور عام ہڑتال بھی۔
اس موقع پر کشمیر کے کئی علاقوں میں دکانیں، کاروباری مراکز اور اہم ادارے بند رہے جب کہ حالات قابو میں رکھنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔ کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس دستوری شق میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی گئی، تو خطے بھر میں بڑی احتجاجی تحریک شروع ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت پر نظرثانی سے متعلق اپیل ’وی دا سیٹیزن‘ نامی ایک غیرسرکاری تنظیم نے جمع کرائی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ دستور کا آرٹیکل 35 اے شہریوں کی ایک خاص گروہ بندی کرتا ہے، جو تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی دستوری ضمانت کی خلاف ورزی ہے۔ اس پٹیشن کے مطابق شہریت کے قوانین کے مطابق کسی علاقے یا اس کے شہریوں کو خصوصی حیثت نہیں دی جا سکتی اور یہ دستوری شق شہریوں کے درمیان تفریق کے زمرے میں آتی ہے۔
رفعت فرید(کشمیر)، ع ت، ع س