شہریت ترمیمی بل: دلی میں آباد پاکستانی مہاجرین خوش
12 دسمبر 2019بھارتی پارلیمان میں شہریت ترمیمی بل کی منظوری سے پاکستان سے بھارت آنے والی ہندو مہاجر موہنی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہیں۔ وہ پاکستان میں اپنے ساتھ ہونے سلوک کے بارے میں بھی بتاتی ہیں۔ موہنی کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ہی انھیں اپنی عمر صحیح پتہ ہے لیکن اندازہ لگاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی عمر تقریبا پینسٹھ اور ستّر برس کے درمیان ہوگی۔
ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں موہنی بھارت آنے کے بعد سے اپنا تجربہ بتاتی ہیں ’’ہم یہاں تقریبا سات یا آٹھ برس پہلے آئے تھے، تبھی سے اسی طرح کی کچی آبادی میں رہ رہے ہیں۔ میری تو اب عمر ہوچکی ہے لیکن میرے بچے ایک ٹھیلا چلاتے ہیں۔ میٹرو اسٹیشن کے نیچے موبائل کور بیچتے ہیں، سبزیاں بیچتے ہیں۔ کسی طرح ہم اپنا گزارہ کر رہے ہیں۔ یہاں بجلی اور پانی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ہم یہاں خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ اب یہی ہمارا ملک ہے، بھارت اب ہمارا ملک ہے۔''
موہنی کا کہنا ہے کہ اب جو کچھ بھی ہوجائے وہ پاکستان واپس نہیں جائیں گی۔ پاکستان کا نام آتے ہی، موہنی جذباتی ہو کر کہتی ہیں "بہت ظلم ہوا ہے، ہمارے لوگوں کے لیے وہاں کچھ نہیں ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ وہاں ہندوؤں کو کچھ کرنے نہیں دیتے ہیں۔ اسکولوں میں ہندو بچوں کو اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں یہ سب بہت کچھ برداشت کرنے کے بعد بھارت آگئے ہیں۔"
دہلی کے مجلس پارک میٹرو اسٹیشن کے قریب موہینی جیسے پاکستان سے ہجرت کر کے بھارت آنے والے تقریبا 600 ہندو مہاجر آباد ہیں۔ ان میں بوڑھے ، بچے ، خواتین اور نوجوان شامل ہیں۔ ابتدا میں جب ہندو مہاجرین دہلی پہنچے تو انہیں سے اس علاقے میں آباد ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ گزشتہ چھ برسوں سے یہ مہاجر کنبے تنکا تنکا جوڑ کر اپنی جھگی اور جھوپڑیاں بنانے میں مصروف ہیں۔ اس بستی میں بسنے والے مہاجرین کا کہنا ہے کہ یہاں تقریبا دو سو خاندان کچے مکانات میں رہتے ہیں۔
ستر برس کے دیوا کا کہنا ہے کہ وہ تین برس قبل بھارت آئے تھے۔ جب ان سے بھارت آنے کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے ایک لائیو ٹی پروگرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں وہاں کیسی پریشانیاں لاحق تھیں۔ دیوا کے مطابق: "ہم سب کچھ چھوڑ کر پاکستان سے یہاں آئے تھے۔ پریشانی ہوئی تبھی تو ہم یہاں آئے تھے۔ یہ ہمارا ملک ہے۔ اس ملک پر ہمارا بھی حق ہے۔"
پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد، اس پناہ گزین کیمپ کے آس پاس میڈیا میں اضافہ ہوا ہے۔ دیوا سمیت اس بستی کے تعلق کے مکین نیوز اینکرز اور ماہرین کی بحث کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد ان جیسے لوگوں کو آسانی سے بھارتی شہریت مل جائے گی۔
اسی کیمپ میں پرچون کی دکان چلانے والی 30 سالہ لتا کا کہنا ہے کہ وہ پاسپورٹ اور ویزا لے کر بھارت پہنچی تھیں۔ لتا کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں اس لیے دستاویزات سے متعلق وہ بہت کچھ نہیں جانتی ہیں۔ لتا کا بھائی دہلی میں ایک ٹھیلا چلاتا ہے۔
لتا بتاتی ہیں کہ اس طرح کی کچی آبادی میں رہنا کتنا مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں؛ "بھگوان نے ہمیں ہاتھ پاؤں دیئے ہیں، ہم اپنا گزارا کر لیتے ہیں۔ لیکن بجلی اور پانی جیسی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی زندگی بہت مشکل ہے۔" بستی میں گزشتہ چند دنوں سے بڑھتی سرگرمیوں سے لتا کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ اس جیسے لوگوں کو شہریت دینے کے سوال پر ملک میں بحث جاری ہے۔
مٹی کے چولہے پر کھانا پکاتے ہوئے سییا بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر رکشہ چلاتے ہیں۔ حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والی کی شکایت ہے کہ وہاں بچوں کو ہندو مذہب کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی اور یہاں دلی میں انھیں یہ سب آسانی سے میسر ہے۔
پاکستانی حیدرآباد کے بیشتر مہاجر اسی کچی آبادی میں رہتے ہیں۔ بستی میں ایک اسکول بھی ہے جہاں پرائمری تعلیم دی جاتی ہے۔ بستی میں داخل ہوتے ہی ایک مندر بھی ہے جہاں پاکستانی مہاجر ہندو صبح و شام پوجا کرتے ہیں۔ مندر کے پجاری سونا داس کا کہنا ہے کہ "ہمیں یہاں کوئی بھی پوجا کرنے سے نہیں روکتا ہے۔"
ہر ایک کو امید ہے کہ شہریت ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد ان کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ بچوں کا مستقبل روشن ہوگا اور حکومت انہیں اس بستی میں بجلی پانی مہیا کرے گی۔
رپورٹ: عامر انصاری ⁄ ترجمہ: زین صلاح الدین (ع ح)